میں دل کا مریض ہوں، مجھے مختلف چیزوں سے پرہیز ہے، میری بیوی مجھے اس پرہیز کی وجہ سے بہت سی چیزوں سے منع کرتی ہے، ہم بستری کرنے میں بھی رد کرتی ہے۔ پچھلے ہفتے گھر میں اچھا کھانا پکا تھا تو انہوں نے مجھے وہ کھانے سے روکا تو میں نے غصہ میں کہا کہ ’’آئندہ اگر تم نے مجھے کسی چیز سے منع کیا تو تم مجھ پر طلاق ‘‘، اب اس کا کیا حکم ہے؟ اس کے بعد میں نے اپنی بیوی کو اس جملہ کا اختیار بھی دے دیا (یعنی مجھے منع کرسکتی ہے)۔
سوال یہ ہے کہ طلاق ہوئی ہے یا نہیں؟
صورتِ مسئولہ میں سائل نے جب بیوی کے کھانا کھانے سے منع کرنے پر ان الفاظ کے ساتھ بیوی کی طلاق کو معلق کردیا کہ :"آئندہ اگر تم نے مجھے کسی چیز سے منع کیا تو تم مجھ پر طلاق "، تو ان الفاظ کی ادائیگی سے تعلیق واقع ہوگئی تھی، لہذا سائل کا اپنی بیوی کو منع کرنے کی اجازت دینے سے یہ تعلیق ختم نہیں ہوگی ،جب تک سائل کی بیوی سائل کو کسی چیز سے منع نہیں کرتی اس وقت سائل کی بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی، اور اگر سائل کی بیوی نے آئندہ اگر کسی چیز سے سائل کو منع کیا تو ایک طلاق رجعی واقع ہوجائے گی، جس کا حکم یہ ہے کہ طلاق واقع ہونے کے بعد سائل عورت کی عدت (تین ماہ واریاں مکمل ہونے سے پہلے )گزرنے سے قبل بیوی سے رجوع کرسکتا ہے، رجوع کے لیے زبان سے یہ کہہ دینا کہ میں نے رجوع کرلیا اس سے بھی رجوع ہوجائے گا اور بیوی کے ساتھ تعلقات قائم کرنے یا بوسہ لینے سے بھی رجوع ہوجائے گا، اور دونوں کا نکاح برقرار رہے گا، آئندہ بیوی کے منع کرنے سے مزید کوئی طلاق واقع نہ ہوگی ، اور آئندہ کے لیے سائل کو صرف دو طلاقوں کا حق حاصل ہوگا۔
بدائع الصنائع میں ہے:
"أما الطلاق الرجعي فالحكم الأصلي له هو نقصان العدد، فأما زوال الملك، وحل الوطء فليس بحكم أصلي له لازم حتى لا يثبت للحال، وإنما يثبت في الثاني بعد انقضاء العدة، فإن طلقها ولم يراجعها بل تركها حتى انقضت عدتها بانت."
(كتاب الطلاق: فصل في بيان حكم الطلاق، ج:3 ص:180، ط: دار الكتب العلمية)
و فيه أيضا:
"فالحكم الأصلي لما دون الثلاث من الواحدة البائنة، والثنتين البائنتين هو نقصان عدد الطلاق، وزوال الملك أيضا حتى لا يحل له وطؤها إلا بنكاح جديد ."
(كتاب الطلاق: فصل في بيان حكم الطلاق، ج:3 ص:187، ط: دار الكتب العلمية)
فتاوی ہندیۃ میں ہے:
" ألفاظ الشرط إن وإذا وإذما وكل وكلما ومتى ومتى ما ففي هذه الألفاظ إذا وجد الشرط انحلت اليمين وانتهت لأنها تقتضي العموم والتكرار فبوجود الفعل مرة تم الشرط وانحلت اليمين فلا يتحقق الحنث بعده إلا في كلما لأنها توجب عموم الأفعال فإذا كان الجزاء الطلاق والشرط بكلمة كلما يتكرر الطلاق بتكرار الحنث حتى يستوفي طلاق الملك الذي حلف عليه فإن تزوجها بعد زوج آخر وتكرر الشرط لم يحنث عندنا كذا في الكافي."
(الفتاوى الهندية: كتاب الطلاق، الباب الرابع في الطلاق بالشرط، ج:1 ص:452، ط: دارالكتب العلمية)
الدر المختار مع رد المحتار میں ہے:
"باب التعليق (هو) لغة من علقه تعليقا قاموس: جعله معلقا. واصطلاحا (ربط حصول مضمون جملة بحصول مضمون جملة أخرى) ويسمى يمينا مجازا وشرط صحته كون الشرط معدوما على خطر الوجود؛ فالمحقق كإن كان السماء فوقنا تنجيز، والمستحيل كإن دخل الجمل في سم الخياط لغو وكونه متصلا إلا لعذر وأن لا يقصد به المجازاة."
رد المحتار: "(قوله واصطلاحا ربط إلخ) فهو خاص بالمعنوي والمراد بالجملة الأولى في كلامه جملة الجزاء، وبالثانية جملة الشرط، وبالمضمون ما تضمنته الجملة من المعنى، فهو في مثل إن دخلت الدار فأنت طالق ربط حصول طلاقها بحصول دخولها الدار."
(الدر الكختار مع رد المحتار: كتاب الطلاق/ باب التعليق، ج:3 ص:342، ط: دار الفكر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144608100260
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن