بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

BKB - 1 نامی گوگل ویب سائٹ پر سرمایہ کاری کرنا اور اس کا شرعی حکم


سوال

ہم ایک گوگل ویب سائٹ پر ڈالر کمانے کےلیے کام کرتے ہیں،اس ویب سائٹ کا نامBKB-1ہے،اس کے متعلق تفصیل مندرجہ ذیل ہے:

1-  اس میں ہم تجارت کی غرض  سے ڈالر جمع کرتے ہیں ۔

2- جو  ڈالر ہم نے اس میں جمع کیے ہیں، وہ ہمارے اختیار میں ہوتےہیں ، اگر ہم چاہیں آج نکالنا تو نکال سکتے ہیں، نکالنےکی صورت میں صرف 1/2 روپے ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔

3-ویب سائٹ پیسوں کے موافق منافع دیتی  ہے ،مثال کے طور پر (میں نے 100 ڈالر جمع کیے ،تو مجھے دن میں کبھی 2 ڈالر دیتی ہے، اور کبھی 2.5 ڈالر دیتی  ہے ،اور کبھی مجھے 3 ڈالر دیتی ہے ۔

4- منافع کبھی کم اور کبھی زیادہ ہوتا ہے، یہ مارکیٹ کے ریٹ کے اعتبار سے ہوتا ہے ،اصل میں یہ کمپنی کرنسی ایکسچینج کا کام کرتی ہے۔

5- اس کمپنی کے کام کا طریقہ کاریہ ہوتاہےکہ یہ ایک بینک سے کرنسی کم قیمت پرخریدتی ہے ، پھر وہی کرنسی دوسری  بینک پر زیادہ قیمت کےساتھ بیچتی ہے، اور یہ کمپنی مختلف عالمی بینکوں مثلاً (BAINANCE).(OKX).(BYBIT)کے ساتھ  تجارت کرتی ہے ۔

6- اس کمپنی میں یہ شرائط بھی نہیں ہیں کہ اگر آپ نے لوگوں کو انوائٹ کیا تب آپ کو فائدہ ملے گا ورنہ نہیں ملے گا ،ہاں اگر کسی نے دوستوں کو انوائٹ کیا تو ان کو اپنے دوستوں سے منافع ملتا ہے لیکن انوائٹ کرنا شرط نہیں ہے ۔

7-اگر ہم نے ویب سائٹ پر کام نہیں کیا تو ہمیں کچھ فائدہ نہیں ملے گا، فائدہ ہمیں تب ملے گا جب ہم کام کریں، ورنہ کمپنی ہمیں کچھ نہیں دیتی ۔

8- یہ کمپنی زلزلہ یا سیلاب یا آفاتِ سماویہ پیش آنے کی صورت میں متاثرین لوگوں کی مدد بھی کرتی ہے ۔

مذکورہ کمپنی میں کام کرنے کی تفصیل یہ ہے کہ اس ویب سائٹ میں ایک آپشن(سگنل سٹارٹ کنٹفیکیشن )ہے،ہم اس پر چھ (6)مرتبہ کلک کرتے ہیں،جب ہم اس پر ایک مرتبہ کلک کریں تو اس پر مارکیٹنگ شروع ہوجاتی ہے ،کم ازکم ایک مرتبہ کلک کرنے پر 1منٹ کا وقت لگ جاتاہے، اور جو کرنسی فائدہ مند ہو تو کمپنی وہی کرنسی ہمارے لیے خریدتی  ہے،اور آگےفروخت بھی کردیتی ہے ،اور کرنسی ہمیں کام کرنے کی جگہ پر نظر نہیں آتی، جب ہم کام مکمل کرلیتے ہیں،تو کام کرنے کا جو ریکارڈ ہوتاہے، وہاں پر سب کچھ ظاہرہوتاہے کہ کمپنی نے آپ کے لیے یہ خریدی ہے اور پھر سیل کردی ہے، اور آپ کو اتنا منافع دیا ہے،  اصل میں کمپنی ہمیں صرف کلک کرنے کو کہتی ہے اور آگے کمپنی ہماری آسانی کے لیے خودسیل کرتی ہے۔

آپ مفتیان کرام اور علماء کرام سے درخواست ہے کہ ہمیں اس ویب سائٹ کے بارے میں آگاہ کریں،  آیا اس کمپنی کے ساتھ تجارت کرنا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

واضح  رہے کہ آج کل مختلف  سائٹس پر  ٹریڈنگ (تجارت)کے لیے  اکاؤنٹ میں پیسے جمع کر کے اسے آن لائن کرنسی یا الیکٹرانک منی میں تبدیل کر کے اس کی خرید و فروخت کی جاتی ہے،  اور   کرنسی کی خرید و فروخت کا طریقہ کار بھی قرعہ اندازی جیسا ہوتا ہے،نیز کرنسی، سونا اور چاندی کی آن لائن خرید و فروخت شرعاً درست نہیں ہے، کیوں کہ ان اشیاء کی بیع درست ہونے کے لیے ضروری ہے کہ ہاتھ در ہاتھ ہو اور مجلسِ عقد میں جانبین سے عوضین پر قبضہ پایا جائے، اسی طرح اگر    کرنسی   ایک ہی ہو تو اس  کے تبادلےاور خرید و فروخت  کی صورت میں  کمی بیشی  کرنا شرعًا درست نہیں ہے، اسی طرح جس سائٹ پر اس کی پبلسٹی(تشہیر) کے لیے دوسرے لوگوں کو بھی انوائٹ(دعوت و پیشکش )کی جاتی ہے جس میں پہلے اکاؤنٹ بنانے والے کوہر نئے اکاؤنٹ بنانے والے پر کمیشن ملتا رہتا ہے، جب کہ اس نے اس نئے اکاؤنٹ بنوانے میں کوئی عمل نہیں کیا، اس بغیر کسی کام کے کمیشن لینے کا معاہدہ کرنا اور اس پر اُجرت لینا بھی جائز نہیں ہے۔ 

مذکورہ بالا تفصیلات کی روشنی میں بچندِ وجوہ مذکورہ ویب سائٹ یا اس جیسی دیگر سائٹز کےذریعے اکاؤنٹ بناکر اس میں پیسے جمع کرکےآن لائن تجارت کرنا شرعًا درست نہیں ہے۔

(1) کیونکہ  اس طرح کی ویب سائٹ میں پیسے جمع کرکے تجارت کرنےکےلیے اولًا اسے ڈیجیٹل کرنسی میں تبدیل کیا جاتا ہے، اور شرعًا اس کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی، اور حقیقۃً اس طرح كی ویب سائٹ ميں بيع نہیں ہوتی، بلكہ اس ميں سرمايہ كاری كرنے والےاکثر   حضرات كا مقصد اس ڈيجيٹل كرنسی كے  اتار چڑھاؤ کی وجہ سے  قیمتوں میں ہونے والی تفاوت کے ذریعے نفع کمانا ہوتاہے ۔

(2)  ویب سائٹ کرنسی کے تبادلے کا جو کام کرتی ہے شرعًا اسے "بیعِ صرف" کہاجاتاہے، اور اس بیع میں  متعاقدین کا مجلسِ عقد میں ہی عوضین پر قبضہ کرنا ضروری ہے، اور اسی طرح عوضین کے ایک ہونے کی صورت میں  اس پر کمی بیشی کرنا بھی شرعًا درست نہیں ہے،لہٰذا مجلسِ عقد میں عوضین پر تقابض نہ پائےجانے کی وجہ سے ، اور اسی طرح عوضین میں کمی بیشی کی وجہ سےایسے سودے شرعًا  فاسد ہوں گے اور اس پر ملنے والا نفع بھی حلال نہ ہوگا۔

(3)ویب سائٹ کی تشہیر کےلیے  ایک شخص کا دوسرے کو انوائٹ کرنے کی وجہ سے اسے جو  کمیشن  ملتا ہے   جب کہ اس نے اس نئے اکاؤنٹ بنوانے میں کوئی عمل نہیں کیا، تو اس بغیر طرح کسی کام کے کمیشن لینے کا معاہدہ کرنا اور اس پر اُجرت لینا بھی جائز نہیں، اگرچہ کمپنی کی جانب سے دوسروں کو انوائٹ کرنا ضروری نہ ہو۔  

لہٰذا ان وجوہات اور شرعی طور پر پائے جائے سقم کی وجہ سے مذکورہ ویب سائٹ پر سرمایہ کاری کرکے تجارت کرنا شرعًا درست نہیں ہے۔ 

الدر المختار میں ہے:

"(هو) لغة: الزيادة. وشرعا: (بيع الثمن بالثمن) أي ما خلق للثمنية ومنه المصوغ (جنسا بجنس أو بغير جنس) كذهب بفضة (ويشترط) عدم التأجيل والخيار و (التماثل) أي التساوي وزنا (والتقابض) بالبراجم لا بالتخلية (قبل الافتراق)وهو شرط بقائه صحيحا على الصحيح (إن اتحدا جنسا وإن) وصلية (اختلفا جودة وصياغة) لما مر في الربا (وإلا) بأن لم يتجانسا (شرط التقابض) لحرمة النساء (فلو باع) النقدين (أحدهما بالآخر جزافا أو بفضل وتقابضا فيه) أي المجلس (صح، و) العوضان (لا يتعينان) حتى لو استقرضا فأديا قبل افتراقهما أو أمسكا ما أشار إليه في العقد وأديا مثلهما جاز. (ويفسد) الصرف (بخيار الشرط والاجل) لاخلالهما  بالقبض (ويصح مع إسقاطهما في المجلس) لزوال المانع. "

(كتاب البيوع، باب الصرف، ص:446، ط:دار الكتب العلمية  بیروت)

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"وأما إذا حصل الافتراق بعد قبض أحد البدلين لا غير إما حقيقة أو حكما فإن حصل الافتراق بعد قبض أحد البدلين حقيقة جاز في غير الصرف ولم يجز في الصرف بيانه.

 فيمن اشترى دينارا بعشرة دراهم حتى كان العقد صرفا فانقبض الدينار ولم يسلم العشرة أو قبض العشرة ولم يسلم الدينار حتى تفرقا كان البيع باطلا."

(کتاب البیوع، الباب التاسع، الفصل الأول في بيع الدين وبيع الأثمان وبطلان العقد بسبب الافتراق قبل القبض، ج:3، ص:102، ط:المطبعة الكبرى الأميرية بولاق مصر)

ملتقی الأبحر میں ہے:

"ولو قبض المبيع بيعا فاسدا بإذن بائعه صريحا أو دلالة كقبضه في مجلس عقده وكل من عوضيه مال ملكه ولزمه لهلاكه مثله حقيقة أو معنى كالقيمة في القيمي ولكل منهما فسخه قبل القبض وبعده ما دام في ملك المشتري إذا كان الفساد في صلب العقد كبيع درهم بدرهمين، وإن كان لشرط زائد كشرط أن يهدي له هدية فكذا قبل القبض، وأما بعده فالفسخ لمن له الشرط لا لمن عليه الشرط، ولا يأخذه البائع حتى يرد ثمنه، فإن مات البائع فالمشتري أحق به حتى يأخذ ثمنه وطاب للبائع ربح ثمنه بعد التقابض لا للمشتري ربح مبيعه فيتصدق به."

(کتاب البیوع، باب البیع الفاسد، ص:94، ط:دار الکتب العلمیة بیروت)

مجمع الأنھر میں ہے:

"لا يجوز أخذ الأجرة على المعاصي (كالغناء، والنوح، والملاهي)؛ لأن ‌المعصية ‌لا ‌يتصور استحقاقها بالعقد فلا يجب عليه الأجر، وإن أعطاه الأجر وقبضه لا يحل له ويجب عليه رده على صاحبه."

(كتاب الإجارة، باب الإجارة الفاسدة، ج:2، ص:384،  ط: دار إحياء التراث العربي بیروت)

فقط و الله أعلم


فتوی نمبر : 144508100993

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں