جو فوجی بوٹ ہوتے ہیں جن کو ڈی ایم ایس بھی کہتے ہیں ، اگروہ صاف ہوں تو ان میں نمازہوجاتی ہے ؟
جوتے یا بوٹ اگر ایسے ہوں کہ انہیں پہننے کی صورت میں سجدے میں پیروں کی انگلیاں بلا واسطہ یا جوتے کے واسطے سے (یعنی جوتے کے اس حصے کے ساتھ ملی ہوں جو زمین کے ساتھ لگتا ہے) زمین پرلگتی ہوں تو ایسے جوتوں میں نماز درست ہوجائے گی۔
لیکن اگرجوتےیا بوٹ ایسے ہوں کہ ان میں پاؤں کی انگلیاں زمین پر نہ لگ سکیں نہ بلا واسطہ اور نہ بالواسطہ تو اس صورت میں ایسے بوٹ پہن کر نماز ادا کرنا جائز نہ ہوگا۔
البتہ اگر کوئی شخص مسجد میں جوتوں کے ساتھ نماز پڑھتا ہے تو یہ موجودہ زمانے میں عرفًامسجد کے ادب کے خلاف ہے،اور آج کل کیوں کہ مساجد میں فرش اور قالین ہوتا ہے، ماربل، ٹائل وغیرہ لگاکر، اس پر قالین بچھا کر انہیں صاف ستھرا رکھنے کا اہتمام کیا جاتاہے،، جب کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں مسجدِ نبوی کا فرش کچا تھا، یعنی زمین پر چھوٹے چھوٹے سنگریزے بچھے ہوئے تھے،لہذا اگر موجودہ زمانے میں مساجد میں گلی کوچوں سے لوگ جوتے پہن کر آئیں اور اسی حالت میں مسجد میں جوتوں میں نماز پڑھیں تو مسجد کی صفائی ستھرائی نہیں رہے گی،اسی وجہ سے عصر حاضر میں مساجد میں جوتے پہن کر نماز پڑھنا درست نہیں۔
البتہ اگر مسجد کے علاوہ کسی جگہ جوتوں میں نماز پڑھنے کی ضرورت پیش آجائے تو جوتوں میں نماز پڑھنا مذکورہ بالا شرائط کے ساتھ درست ہے۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"(قوله: وصلاته فيهما) أي في النعل والخف الطاهرين أفضل؛ مخالفةً لليهود، تتارخانية.
وفي الحديث: " «صلوا في نعالكم، و لاتشبهوا باليهود» رواه الطبراني كما في الجامع الصغير رامزًا لصحته. وأخذ منه جمع من الحنابلة أنه سنة، و لو كان يمشي بها في الشوارع؛ لأنّ النبي صلى الله عليه وسلم وصحبه كانوا يمشون بها في طرق المدينة ثم يصلون بها.
قلت: لكن إذا خشي تلويث فرش المسجد بها ينبغي عدمه وإن كانت طاهرةً. و أما المسجد النبوي فقد كان مفروشًا بالحصى في زمنه صلى الله عليه وسلم بخلافه في زماننا، و لعل ذلك محمل ما في عمدة المفتي من أن دخول المسجد متنعلًا من سوء الأدب، تأمل."
(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1 / 657)،[فروع اشتمال الصلاة على الصماء والاعتجار والتلثم والتنخم وكل عمل قليل بلا عذر]، باب ما يفسد الصلاة، وما ويكره فيها، ط: سعید)
فتح الملہم میں ہے:
" قوله قال نعم، الخ فیه جواز الصلاة فی النعال والخفاف، أی إذا تحقق طهارتها ویتمکن معها من تمام السجود، بأن یسجد علی جمیع أصابع رجلیه کما قال الخطابی ."
(كتاب المساجد ومواضع الصلوة، باب جواز الصلوة في النعلين، ج:4، ص:96، ط:دار احياء التراث العربي بيروت لبنان)
فتاوی شامی میں ہے:
"(ومنھا السجود) بجبھة وقدمیه، ووضع اصبع واحدۃ منھما شرط۔۔۔(قوله وقدمیه) یجب اسقاطه لان وضع اصبع واحدۃ منھما یکفی کما ذکرہ بعدح وأفاد انه لو لم یضع شیأ من القدمین لم یصح السجود."
(كتاب الصلاة، باب صفة الصلاة، فرائض الصلاة، ج:1، ص:447، ط: دار الفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144212201086
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن