بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

بریلوی امام کے پیچھے نماز


سوال

بریلوی امام کے پیچھے نماز پڑنا کیسا ہے؟

جواب

بہتر یہ ہے کہ صحیح العقیدہ  اور  متبعِ سنت امام میسر ہونے کی صورت میں اسی کی اقتدا میں نماز ادا کی جائے، لہٰذا اگر موقع ہو تو اہلِ حق کی مساجد میں ہی نماز ادا کرنی چاہیے، لیکن اگر ایسی صورت ممکن نہ ہو تو بدعتی کی اقتدا میں نماز پڑھنا جائز ہوگا، بشرطیکہ اس کے عقائد و نظریات  حد شرک تک پہنچانے والے نہ ہوں، نیز بدعتی امام کی اقتدا میں نماز  تنہا نماز سے بہتر ہوگی، لیکن متقی و پرہیزگار شخص کی اقتدا میں نماز کا جو ثواب ہے، وہ اس صورت میں حاصل نہیں ہوگا۔

واضح رہے کہ بریلویوں کے بارے میں ہمارے اکابر نے کفر یا شرک کا فتویٰ نہیں دیا ہے، البتہ ان میں سے جو عملی بدعات میں مبتلا ہیں انہیں بدعتی کہا جائے گا، اور جو جمہور اہلِ سنت والجماعت سے جداگانہ عقائد رکھتے ہیں انہیں بدعتی ہونے کے ساتھ ساتھ گم راہ اور اہلِ ہویٰ میں سے کہا جائے گا۔ بریلوی کی اقتدا میں نماز ادا کرنا مکروہِ تحریمی ہے، صحیح العقیدہ  امام مل جائےتو ایسے بدعتی امام کی اقتدا میں نماز نہیں پڑھنی چاہیے، اور اگر صحیح العقیدہ امام نہ ملے تو مجبوراً ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھ لی جائے ، جماعت نہیں چھوڑنی چاہیے ، اور اس نماز کے اعادہ  (دہرانے) کی ضرورت بھی نہیں ہوگی، البتہ متقی پرہیزگار  کے پیچھے نماز پڑھنے سے جتنا ثواب ملتا ہے  اتنا ثواب نہیں ملے گا۔

 سابق مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی ولی حسن ٹونکی صاحب رحمہ اللہ کا ایک فتویٰ سوال و جواب کی عبارت کے ساتھ درج ذیل ہے:

سوال: فرقہ بریلویہ جن کے عقائد مشہور و معروف ہیں کہ وہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے علمِ غیب کلی عطائی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حاضر و ناظر و مختارِ کل مانتے ہیں، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نور مان کر صورۃً بشر کہتے ہیں، علاوہ ازیں نذر لغیر اللہ کو نہ صرف مانتے ہیں، بلکہ اس کی دعوت بھی دیتے ہیں، دریافت طلب امر یہ ہے کہ اس فرقہ کو مشرک و کافر کہا جائے یا مسلمان مبتدع ضال و مضل؟ 

جواب: کافر و مشرک کہنا مشکل ہے، اکابرِ دیوبند نے ان لوگوں پر ان عقائدِ کفریہ و شرکیہ کے باوجود کفر کا فتویٰ نہیں دیا، اس لیے مبتدع اور ضال مضل کہہ سکتے ہیں، کافر نہیں۔ فقط واللہ اعلم

کتبہ: ولی حسن  (21/4/1400)

 

ہاں اگر کسی امام کے متعلق یقین سے معلوم ہوکہ وہ بلاتاویل شرکیہ عقائد میں مبتلا ہے تو  ایسے امام کے عقیدے کا علم ہونے کے باوجود اس کی اقتدا میں نماز پڑھنا جائز نہیں ہے، پڑھنے کی صورت میں اعادہ لازم ہوگا۔ البتہ جب تک کسی بریلوی کے متعلق یقین نہ ہو کہ اس کا عقیدہ شرکیہ ہے تو اس کی اقتدا میں نماز پڑھنے کی صورت میں اعادہ لازم نہیں ہوگا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"قال المرغيناني تجوز الصلاة خلف صاحب هوى وبدعة ... وحاصله إن كان هوى لا يكفر به صاحبه تجوز الصلاة خلفه مع الكراهة وإلا فلا. هكذا في التبيين والخلاصة وهو الصحيح."

(کتاب الصلاۃ، الباب الخامس، جلد:1، صفحہ: 84، طبع: دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144511100953

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں