بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

بریلوی کی اقتداء میں نماز کا حکم


سوال

بریلویوں کے پیچھے نماز ہوتی ہے یا نہیں؟ جب کہ آج کل بہت سے علماء کہتے ہیں کہ آج کل ان کا عقیدہ کفر تک پہنچ چکا ہے، یعنی جو خالص اللہ تعالی کی صفات ہیں، مثلاً نبی کو عالم الغیب سمجھنا، ہر جگہ حاضر وناظر ماننا، مختار کل سمجھنا، اسی طرح نبی اکرمﷺ کی بشریت سے انکار کرنا، نیز آج کل بریلوی علماء ہمارے اکابرین جیسے حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ تعالی کو کافر کہتے ہیں، لہذا ان تمام باتوں کی بناء پر ان کے پیچھے نماز نہیں ہوتی۔

مہربانی فرما کر اس مسئلے میں ہماری راہ نمائی فرمائیں!

جواب

اگر بریلوی  امام نبی اکرم ﷺ کو اللہ تعالی کی مانند ہر جگہ حاضر وناظر ، مختار کل اور عالم الغیب سمجھتا ہو تو یہ شرک ہے، لہذا جان بوجھ کر ایسے عقائد رکھنے والے امام کی اقتداء میں نماز پڑھنا جائز نہیں، پڑھنے کی صورت میں نماز لوٹانا لازم ہے، البتہ اگر لاعلمی میں پڑھ لی تو نماز ہوجائے گی اور لوٹانے کی ضرورت نہ ہوگی۔ اور اگر امام بدعتی تو ہے، لیکن شرکیہ عقائد نہیں رکھتا  تو اس کی امامت مکروہ ہے، اگر صحیح العقیدہ امام میسر ہو تو اس کی اقتداء میں نماز نہیں پڑھنی چاہیے، لیکن اگر صحیح العقیدہ امام میسر نہ ہو تو مجبوراً ان کے پیچھے نماز پڑھی جاسکتی ہے اور یہ نماز دہرانے کی ضرورت نہیں، البتہ متقی پرہیزگار  کے پیچھے نماز پڑھنے سے جتنا ثواب ملتا ہے،  اتنا ثواب نہیں ملے گا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(ويكره).......(ومبتدع) أي صاحب بدعة وهي اعتقاد خلاف المعروف عن الرسول لا بمعاندة بل بنوع شبهة وكل من كان من قبلتنا (لا يكفر بها) حتى الخوارج الذين يستحلون دماءنا وأموالنا وسب الرسول، وينكرون صفاته تعالى وجواز رؤيته لكونه عن تأويل وشبهة بدليل قبول شهادتهم.....إلا الخطابية ومنا من كفرهم (وإن) أنكر بعض ما علم من الدين ضرورة (كفر بها) كقوله إن الله تعالى جسم كالأجسام وإنكاره صحبة الصديق (فلا يصح الاقتداء به أصلا) فليحفظ (وولد الزنا) هذا إن وجد غيرهم وإلا فلا كراهة بحر بحثا.

(قوله وهي اعتقاد إلخ) عزاه هذا التعريف في هامش الخزائن إلى الحافظ ابن حجر في شرح النخبة، ولا يخفى أن الاعتقاد يشمل ما كان معه عمل أو لا، فإن من تدين بعمل لا بد أن يعتقده كمسح الشيعة على الرجلين وإنكارهم المسح على الخفين وذلك، وحينئذ فيساوي تعريف الشمني لها بأنها ما أحدث على خلاف الحق المتلقى عن رسول الله صلى الله عليه وسلم من علم أو عمل أو حال بنوع شبهة واستحسان، وجعل دينا قويما وصراطا مستقيما اهـ فافهم (قوله لا بمعاندة) أما لو كان معاندا للأدلة القطعية التي لا شبهة له فيها أصلا كإنكار الحشر أو حدوث العالم ونحو ذلك، فهو كافر قطعا (قوله بل بنوع شبهة) أي وإن كانت فاسدة كقول منكر الرؤية بأنه تعالى لا يرى لجلاله وعظمته (قوله وكل من كان من قبلتنا لا يكفر بها) أي بالبدعة المذكورة المبنية على شبهة."

(کتاب الصلاۃ، باب الإمامة، ج:1، ص:558-560، ط: ایچ ایم سعید)

البحر الرائق میں ہے:

"وفي الفتاوى لو صلى خلف فاسق أو مبتدع ينال فضل الجماعة لكن لا ينال كما ينال خلف تقي ورع لقوله صلى الله عليه وسلم «من صلى خلف عالم تقي فكأنما صلى خلف نبي» قال ابن أمير حاج ولم يجده المخرجون نعم أخرج الحاكم في مستدركه مرفوعا «إن سركم أن يقبل الله صلاتكم فليؤمكم خياركم فإنهم وفدكم فيما بينكم وبين ربكم»."

(کتاب الصلاۃ، باب الإمامة، ج:1، ص:370، ط: دار الكتاب الإسلامي)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144607100300

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں