بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

بروکرپرنفع ونقصان کاذمہ عائدنہیں ہوتا


سوال

میں اور میرے داماد نے ایک بروکر(Broker)کے ذریعہ ایک جگہ تقریبًا180000روپے کی انویسٹمنٹ (Investment)کی تھی،جس کو ہم نے پیسے دیئے تھے وہ صرف ایک بروکرتھا۔اور پارٹی کو ہم نہیں جانتےہیں ،اب وہ پارٹی پورے پاکستان سے تقریبًا12ارب روپے کافراڈکرکے بھاگ گئی ہیں، اس مسئلہ کا  کورٹ میں اورنیب(NAB) میں کیس چل رہاہے،اور جس بروکر(Broker)کاذکر میں نےکیاہواہے وہ کچھ مہینے بطورنفع ہمارےگھربھی پیسے دیتارہا،بروکر بہت غریب ہے اس کے پاس  دینےکےلیےکچھ بھی نہیں ہے،کیااس صورت  میں ہم انہیں زکات دےکر اپنےپیسےوصول کرسکتے ہیں؟ہمیں نفع نہیں چاہیےوہ رقم جو کہ ہم نےنفع کی صورت میں  لی تھی وہ ہم اپنےایکچول اکاؤنٹ (Actual Account)سےکاٹ دیں گےکیاہم یہ سب کچھ کرسکتےہیں؟

جواب

 واضح ہےکہ بروکر صرف  فروخت کرنے والے اور خریدنےوالے کے درمیان واسطہ ہوتاہے،نفع ونقصان کی ذمہ داری اس پر عائد نہیں ہوتی،لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر برو کر سے دھوکہ دہی ،یازیادتی نہیں پائی گئی تواس صورت میں  اس سے اپناتلف شدہ پیسے مانگنا،یانفع نہ ہونے کی صورت  میں نفع کامطالبہ کرناجائز نہیں ہوگا۔ہاں اگر غریب اور ضروت مند ہے  اور اس کی ملکیت میں اس کی ضرورتِ  اصلیہ سے زائد  نصاب   یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر  رقم نہیں ہے ، اور نہ ہی  اس  قدر ضرورت سے زائد  سامان ہے کہ جس کی مالیت نصاب کے برابر بنتی ہے اور نہ  ہی  وہ سید  ، ہاشمی ہے،یاوہ مقروض ہے اورقرض کی رقم منہاکرنےکےبعدبقیہ رقم(ساڑھےباون تولہ چاندی یااس کی  قیمت کو)نہیں پہنچتی تو اس کو ذاتی ضرورت و استعمال کے لئے زکات دیناجائزہے۔سائل کی ڈوبی ہوئی رقم کے عوض کے طور پر دے کر لینا نہ ہو۔

نوٹ:یہ سائل کے سوال کا جواب ہے ،نہ حقیقت واقعہ کی تصدیق ہے،اور نہ  سفارش ہے۔زکاۃدینے والااپنی تسلی کرکے زکاۃدے سکتاہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

  "وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام"

(كتاب الإجارة، باب الإجارة الفاسدة،ج:6:،ص:63،ط:سعید)

تکملہ حاشیہ ابن عابدین میں ہے:

"أن اشتراط الضمان على الأمين باطل."

(‌‌كتاب الايداع،ج:8،ص:468،ط:سعید)

فتاوی ہندیہ  میں ہے:

'' لا يجوز دفع الزكاة إلى من يملك نصاباً أي مال كان دنانير أو دراهم أو سوائم أو عروضاً للتجارة أو لغير التجارة فاضلاً عن حاجته في جميع السنة، هكذا في الزاهدي، والشرط أن يكون فاضلاً عن حاجته الأصلية، وهي مسكنه، وأثاث مسكنه وثيابه وخادمه، ومركبه وسلاحه، ولا يشترط النماء إذ هو شرط وجوب الزكاة لا الحرمان، كذا في الكافي. ويجوز دفعها إلى من يملك أقل من النصاب، وإن كان صحيحاً مكتسباً، كذا في الزاهدي. (وفيه أيضا)ولا يدفع إلى بني هاشم، وهم آل علي وآل عباس وآل جعفر وآل عقيل وآل الحارث بن عبد المطلب، كذا في الهداية ۔ ويجوز الدفع إلى من عداهم من بني هاشم كذرية أبي لهب؛ لأنهم لم يناصروا النبي صلى الله عليه وسلم، كذا في السراج الوهاج. هذا في الواجبات كالزكاة والنذر والعشر والكفارة، فأما التطوع فيجوز الصرف إليهم، كذا في الكافي.''

(كتاب الزكاة،الباب السابع في المصارف،ج:1،ص:189،ط:دارالفكربيروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله ومديون) هو المراد بالغارم في الآية وذكر في الفتح ما يقتضي أنه يطلق على رب الدين أيضا فإنه قال والغارم من لزمه دين أو له دين على الناس لا يقدر على أخذه وليس عنده نصاب، وفيه نظر لما قال القتبي الغارم من عليه الدين ولا يجد وفاءً."

(كتاب الزكاة،باب مصرف الزكاة والعشر،ج:2،ص:343،ط:سعيد)

فقط والله أعلم

 


فتوی نمبر : 144608102113

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں