بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

بچہ کا ماں باپ میں سے کسی ایک کے نیچے دب کر مرجانا


سوال

اگر بچہ ماں اور باپ کے درمیان سویا ہوا ہو اور صبح وہ مردہ پایا گیا اور اس پر ایسی علامات ہوں کہ وہ ان میں سے کسی ایک کے نیچے آکر مرگیا ہے مگر یہ معلوم نہیں ہو رہا کہ کس سے مرگیا ہے تو کفارہ ان دونوں میں سےکس پر ہوگا؟

جواب

صورتِ مسئولہ  میں بچہ کا ماں باپ میں سے کسی ایک کے نیچےدب کر   مرجانا " قتل جاری مجری خطاء" کے حکم میں ہے،جس میں  دیت اور کفارہ دونوں  لازم ہوتے  ہیں،لہذا   میاں بیوی میں سے ہر ایک غور وفکر کرے جس کا     یقین یاغالب گمان  یہ ہو کہ بچہ میرے نیچے دب جانے کی  وجہ سے فوت  ہوا ہے،تو   اس پر بچہ کے ورثاء کو دیت دینا لازم ہے جس کو بچہ کے ورثاء میں شرعی اعتبار سےتقسیم  کیا جائے گا اورقاتل  كو دیت میں سے کچھ بھی نہیں ملے گا ،   ورثاءمقتول اگر دیت معاف کریں تو معاف ہو جائے گی البتہ  کفارہ ہر حال ميں دینا ہو گا ،کفارے میں مسلسل ساٹھ  روزے رکھناضروری ہے،درمیان میں کسی وجہ سے روزہ نہ رکھنے سےاز سرِ نو  روزے رکھنے ہوں گے،البتہ درمیان میں عورت کے ایام آگئے تو   تسلسل میں فرق نہیں آئے گا، یعنی  ایام سے پہلے اور بعد میں مسلسل روزے رکھنے سے دو ماہ کے روزے مسلسل شمار ہوں گے۔

تبیین الحقائق میں ہے:

"وقوله كنائم انقلب على رجل بيان لما جرى مجرى الخطأ؛ لأن هذا ليس بخطأ حقيقة لعدم قصد النائم إلى شيء حتى يصير مخطئا لمقصوده ولما وجد فعله حقيقة وجب عليه ما أتلفه كفعل الطفل فجعل كالخطأ؛ لأنه معذور كالمخطئ، وإنما كان حكم المخطئ ما ذكره لقوله تعالى فيه:"فتحرير رقبة مؤمنة ودية مسلمة إلى أهله." [النساء: 92] 

( کتاب الجنایات،101/6،ط:المطبعة الكبرى الأميرية - بولاق، القاهرة)

روح المعانی میں ہے:

"والدية تتحملها عنه العاقلة، فإن لم تكن فهي في بيت المال، فإن لم يكن ففي ماله إلا أن يصدقوا أي يتصدق أهله عليه، وسمي العفو عنها صدقة حثا عليه،

وقد أخرج الشيخان عن النبي صلى الله عليه وسلم: كل معروف صدقة ".

(سورۃ النساء،رقم الایۃ:93،ج:3،ص:109،ط:دار الكتب العلمية - بيروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وكفارتهما) أي الخطأ وشبه العمد (عتق قن مؤمن فإن عجز عنه صام شهرين ولاء ولا إطعام فيهما) إذ لم يرد به النص والمقادير توقيفية ."

(کتاب الدیات،574/6،ط:سعید)

التشريع الجنائی الإسلامي میں ہے:

"ومقياس الخطأ فى الشريعة هو عدم التحرز: ويدخل تحته كل ما يمكن تصوره من تقصير فيدخل تحته الإهمال، وعدم الاحتياط، وعدم التبصر، والرعونة، والتفريط، وعدم الانتباه، وغير ذلك مما اختلف لفظه ولم يخرج معناه عن عدم التحرز ."

(الباب الاول فی الجنایات،الفصل الاول القتل،111/2،ط:دار الكاتب العربي، بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144510100762

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں