میں کراچی میں ایک36 فلیٹ پر مشتمل بلڈنگ میں رہائش پذیر ہوں، جہاں مینیجمنٹ کے معاملات ایک کمیٹی سنبھالتی ہے۔ بلڈنگ کے قوانین کے مطابق، ہر نیا خریدار یا کرایہ دار فلیٹ لینے سے پہلے کمیٹی سے NOC حاصل کرے گا اور اس مد میں مخصوص رقم (خریدار: 25,000 روپے، کرایہ دار: 15,000 روپے) ادا کرے گا، یہ رقم بلڈنگ کی دیکھ بھال، مرمت اور دیگر اخراجات پر خرچ کی جاتی ہے، اور اس کا حساب رہائشیوں کو دیا جاتا ہے۔
کیا نیا خریدار یا کرایہ دار کمیٹی کو یہ رقم (NOC فیس) دینا شرعاً جائز ہے؟
بلڈنگ کمیٹی کی طرف سے نئے آنے والے خریدار یا کرایہ دار پر این او سی (NOC) فیس یا کسی اور نام سے رقم عائد کرنا شرعاً جائز نہیں ہے، چوں کہ جب کوئی شخص فلیٹ خریدتا یا کرایہ پر لیتا ہے، تو وہ عمارت کی سہولیات استعمال کرنے کا حق رکھتا ہے، اور اس کے لیے اضافی رقم کا مطالبہ بلاشرعی جواز ہے،کیوں کہ کسی بھی شخص پر بغیر کسی معقول عوض کے مالی بوجھ ڈالنا جائز نہیں ۔
البتہ بلڈنگ کی روزمرہ دیکھ بھال اور بڑے اخراجات جیسے رنگ و روغن، پانی کی لائنوں کی مرمت، لفٹ کی دیکھ بھال، اور دیگر ضروریات کے لیے تمام رہائشیوں سےماہانہ بنیاد پرمینٹیننس لینادرست ہے، کیوں کہ بلڈنگ کے اجتماعی اخراجات کا بوجھ تمام فلیٹ مالکان مساوی طور پر برداشت کریں، اور اس کا مقصد بلڈنگ کی عمومی دیکھ بھال ہے، جس سے تمام رہائشی مستفید ہوتے ہیں، اس لیے ایسے معاملات میں شرعی طور پر تعاون اور باہمی معاہدےکی بنیادپرمینٹیننس فیس لینا جائز ہے۔
مجلۃ الاحکام العدلیۃ میں ہے:
"(المادة 97) : لا يجوز لأحد أن يأخذ مال أحد بلا سبب شرعي."
(المقدمۃ،ص27،ط؛نور محمد)
درر الحکام شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:
"إذا احتاج الملك المشترك للتعمير والترميم فيعمره أصحابه بالاشتراك بنسبة حصصهم سواء كان الملك مشتركا بين أكثر من مالك واحد أو مشتركا بين مالك ووقف أو كان قابلا للقسمة كالدار الكبيرة أو غير قابل للقسمة كالحمام والبئر فإذا كان الوقف شريكا في الملك فيدفع متولي الوقف حصة الوقف في المصرف بنسبة حصته والملك هنا أعم من ملك الرقبة وملك المنفعة. الخلاصة: إن نفقات الأموال المشتركة تعود على الشركاء بنسبة حصصهم في تلك الأموال حيث إن الغرم بالغنم "
"ويتفرع عن ذلك المسائل الآتية:1 - يقتضي الإنفاق مشتركا على تعمير الدار والحمام وبناء الحائط وتشييد السطح وكري النهر والحيوان وإصلاح القناة المشتركات"
(الكتاب العاشر الشركات ج،3،ص 310،ط: دار الجيل )
کفایت المفتی میں ہے:
’’داخلہ کی فیس تو کوئی معقول نہیں، ماہوار فیس لی جاسکتی ہے۔‘‘
(کتاب المعاش،پہلا باب :نوکری ،اجرت ،کرایہ ، ج 7:ص313،ط، دار الاشاعت)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144608101429
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن