میں نے ایئر پورٹ کراچی کے قریب ایک پروجیکٹ (جو اس وقت تیار تو نہیں تھا، البتہ نقشہ/ماڈل کی بنیاد پر دکانوں کی بکنگ کی جا رہی تھی)میں ایک دکان بُک کرائی تھی، جس کی فل پیمنٹ 13250000(ایک کروڑبتیس لاکھ پچاس ہزار )روپے جنوری 2017ء کو میں نے اس پروجیکٹ کے بلڈر کو ادا کر دی تھی، جس کی رسید یں/ کاغذات وغیرہ میرے پاس موجود ہیں، بکنگ کے وقت بلڈر نے ہم سے 2021ء تک دوکانیں مکمل تیار کر کے حوالہ کرنے کا معاہدہ کیا تھا، اس کے باوجود آج مورخہ 24-08-2024ء تک بھی دکان میرے حوالے نہ کر سکے، ابھی تک صرف ڈھانچہ تیار ہے، اور کام کی سست روی سے یہ لگتا ہے کہ 2026ء تک بھی حوالہ نہ کر پائیں، جب کہ دوسری طرف بلڈر کرچی شہر کے مختلف مقامات پر درجنوں مٹھائی کی دوکانیں کھول چکے ہیں۔
آپ مجھے قرآن وسنت کی روشنی میں بتائیے کہ حاجی صاحب کے لیے مٹھائی کی دکانیں کھولنا ضروری تھا یا وعدے کے مطابق بکنگ کی دکانیں تیار کروانا ضروری تھا؟ نیز یہ بھی بتائیے کہ قصداً دوکانوں کی تیاری میں تاخیر کی وجہ سےبلڈر پر کیا جرمانہ / سزا لازم ہوگی؟
صورتِ مسئولہ میں پروجیکٹ کے مالک / بلڈر طے شدہ معاہدہ کےمطابق مقررہ وقت (یعنی 2021ء) تک مذکورہ دکان مکمل تیار کر کے خریدار (سائل ) کے حوالے کرنے کا پابند تھا، اگر مالک / بلڈر نے وسعت کے باوجود پروجیکٹ کی تیاری میں قصداً تاخیر کی تو وہ دوسروں کا مال اپنے ذاتی استعمال میں لانے ،تکلیف دینے اور کیا ہوا معاہدہ پورا نہ کرنے کی وجہ سے کی وجہ سے گنہگار ہیں ۔ ان پر لازم ہے کہ دیگر معاہدات کرنے اور نئے پروجیکٹ شروع کرنے اور تکمیل تک پہنچانے قبل سابقہ پروجیکٹ مکمل کریں اور حق داروں کو ان کا حق حوالہ کریں البتہ اس تاخیر کی وجہ سےبلڈر پر شرعاًکوئی مالی جرمانہ وغیرہ عائد کرنا جائز نہیں۔
قرآنِ مجید میں باری تعالی کا فرمان ہے:
وَأَوۡفُواْ بِٱلۡعَهۡدِۖ إِنَّ ٱلۡعَهۡدَ كَانَ مَسۡـُٔولٗا [الاسراء:34]
ترجمہ:اور عہدِ(مشروع) کو پورا کیا کرو! بے شک(ایسے)عہد کی باز پرس ہونے والی ہے۔ (از بیان القرآن)
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:
"عن زيد بن أرقم رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "إذا وعد الرجل أخاه ومن نيته أن يفي له، فلم يف ولم يجئ للميعاد، فلا إثم عليه." رواه أبو داود، والترمذي.
"(فلم يف) أي: بعذر (ولم يجئ للميعاد) أي: لمانع (فلا إثم عليه) . قال الأشرف: هذا دليل على أن النية الصالحة يثاب الرجل عليها وإن لم يقترن معها المنوي وتخلف عنها. اهـ. ومفهومه أن من وعد وليس من نيته أن يفي، فعليه الإثم سواء وفى به أو لم يف، فإنه من أخلاق المنافقين، ولا تعرض فيه لمن وعد ونيته أن يفي ولم يف بغير عذر، فلا دليل لما قيل من أنه دل على أن الوفاء بالوعد ليس بواجب، إذ هو أمر مسكوت عنه على ما حررته، وسيجيء بسط الكلام على هذا المرام في آخر باب المزاحْ."
(کتاب الآداب، باب الوعد، ج:8، ص:3059، ط: دار الفکر)
الموسوعة الفقهيہ الكويتيہ میں ہے:
"قال الحنفية: الخلف في الوعد حرام إذا وعد وفي نيته أن لا يفي بما وعد، أما إذا وعد وفي نيته أن يفي بما وعد فلم يف، فلا إثم عليه."
(الوفاء بالوعد، ج:44، ص:77، ط: وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية الكويت)
وفیه أيضاً:
"للمبيع شروط هي:أن يكون المبيع موجودا حين العقد، فلا يصح بيع المعدوم، وذلك باتفاق الفقهاء.وهذا شرط انعقاد عند الحنفية."
(البيع،شروط البيع أن يكون المبيع موجودا، ج:9، ص:14، ط:وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية الكويت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144602101636
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن