آج کل فلیٹوں میں نماز کے لیے جگہ مختص کی جاتی ہے، اس میں امام ، مؤذن مقرر ہوتے ہیں، پانچ وقت اذان کے ساتھ نماز ادا کی جاتی ہے، اس جگہ کو شرعی مسجد کہیں گے یا نہیں؟ اس میں اعتکاف اور جمعہ کا کیا حکم ہے؟ چوں کہ مستقل مسجد کی جگہ نہیں ہوتی تو کیا عذر کی بنا پر اسے مسجدِ شرعی کہہ سکتے ہیں؟ اگر عذر کی وجہ سے اسے مسجد شرعی کہیں گے تو اس مسجد کے سامان کا کیا حکم ہوگا؟ اگر کسی حادثہ کی وجہ سے یہ بلڈنگ منہدم ہوجائے تو کیا حکم ہوگا؟
صورت ِ مسئولہ میں اگر بلڈر / مالک اپارٹمنٹ اور بلڈنگ میں کوئی جگہ مستقل نماز کے لیے ہی مختص کردے اور اس کو وہ عارضی مصلیٰ نہ کہے،اور نہ ہی اس جگہ کو تبدیل کرنے کی کوئی نیت ہو اور اس میں امام اور مؤذن مقرر کرکے جماعت بھی شروع کروادےتو شرعا ً یہ جگہ نماز کے لیے وقف ہوجائے گی ، لیکن چوں کہ مسجدِ شرعی کے لیے یہ شرط ہے کہ وہ تحت الثری ٰ (زمین کی نیچے تہہ) سےلےکر آسمان تک مسجد ہو ، اس کے اوپر اور نیچے مسجد کے علاوہ کوئی تعمیر نہ ہو، لہذا اپارٹمنٹ میں بنی مسجد جن کے اوپر فلیٹ بنے ہوتے ہیں وہ” شرعی مسجد“ شمار نہیں ہوں گی۔ ان جگہوں میں نماز باجماعت ادا کرنا جائز ہے، اس سے جماعت کی نماز کا ثواب بھی ملے گا، لیکن مسجد شرعی میں نماز پڑھنے کا جو ثواب ہے وہ اس میں نہیں ملے گا، اس لیے اگر قریب میں جامع مسجد موجود ہو اور کوئی عذر نہ ہو تو جامع مسجد جاکر نماز پڑھنے کو ترجیح دینا چاہیے۔
واضح رہے کہ ماہِ رمضان کے مسنون اعتکاف کے لیے شرعی مسجد ہونا شرط ہے، اس لیے اس اپارٹمنٹ میں بنی مسجد میں مسنون اعتکاف کرنا درست نہیں ہوگا، نیز جمعہ کی ادائیگی کے لیے اگرچہ مسجد شرعی ہونا شرط نہیں ہے،لیکن جمعہ کا قیام شعائرِ دین میں سے ہے، اس میں مسلمانوں کی شوکت کا اظہار بھی ہے، مسلمانوں کا جتنا بڑا مجمع جمع ہوکر خشوع و خضوع سے عبادت کرتاہے اور دعا کرتاہے، اللہ تعالیٰ ان کی دعائیں بھی قبول فرماتے ہیں اور اپنی رحمت بھی نازل فرماتے ہیں، شیطان اس سے مزید رسوا ہوتاہے، لہذا جمعہ کی نماز جامع مسجد میں ادا کرنی چاہیے۔
2: اگر یہ جگہ سابقہ تفصیل کے مطابق نماز کے لیے وقف ہو تو اس صورت میں اس کے سامان کا حکم بھی وقف کی املاک کا ہوگا کہ اس کو اسی کی ضروریات میں استعمال کرنا ضروری ہوگا۔
3: اگر خدانخواستہ بلڈنگ منہدم ہوجائے تو دوبارہ جب تعمیر ہو تو اسی جگہ دوبارہ یہی نماز کی جگہ بنانا ضروری ہوگا۔
تاہم اگر بلڈر یہ جگہ مسجد کے لیے وقف نہ کرے بلکہ عارضی مصلیٰ یا عارضی مسجد قرار دے تو ایسی صورت میں یہ جگہ وقف بھی نہیں ہوگی ، ایسی صورت میں اس کو تبدیل کرنا بھی جائز ہوگا، اور اس کے سامان کا حکم بھی وقف کی املاک والا نہیں ہوگا۔
حدیث مبارک میں ہے:
"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "صلاة الرجل في بيته بصلاة وصلاته في مسجد القبائل بخمس وعشرين صلاة وصلاته في المسجد الذي يجمع فيه بخسمائة صلاة وصلاته في المسجد الأقصى بخمسين ألف صلاة وصلاته في مسجدي بخمسين ألف صلاة وصلاته في المسجد الحرام بمائة ألف صلاة."
(مشکوٰۃ المصابیح، 1/ 234، کتاب الصلوٰۃ، باب المساجدومواضع الصلوٰۃ، الفصل الثالث، ط: المکتب الإسلامی)
فتاوی شامی میں ہے:
"(ويزول ملكه عن المسجد والمصلى) بالفعل و (بقوله جعلته مسجدا) عند الثاني (وشرط محمد) والإمام (الصلاة فيه) بجماعة وقيل: يكفي واحد وجعله في الخانية ظاهر الرواية.
(قوله: والمصلى) شمل مصلى الجنازة ومصلى العيد قال بعضهم: يكون مسجدا حتى إذا مات لا يورث عنه وقال بعضهم: هذا في مصلى الجنازة، أما مصلى العيد لا يكون مسجدا مطلقا، وإنما يعطى له حكم المسجد في صحة الاقتداء بالإمام، وإن كان منفصلا عن الصفوف وفيما سوى ذلك فليس له حكم المسجد، وقال بعضهم: يكون مسجدا حال أداء الصلاة لا غير وهو والجبانة سواء، ويجنب هذا المكان عما يجنب عنه المساجد احتياطا. اهـ. خانية وإسعاف والظاهر ترجيح الأول؛ لأنه في الخانية يقدم الأشهر (قوله بالفعل) أي بالصلاة فيه ففي شرح الملتقى إنه يصير مسجدا بلا خلاف، ثم قال عند قول الملتقى، وعند أبي يوسف يزول بمجرد القول ولم يرد أنه لا يزول بدونه لما عرفت أنه يزول بالفعل أيضا بلا خلاف اهـ. مطلب في أحكام المسجد قلت: وفي الذخيرة وبالصلاة بجماعة يقع التسليم بلا خلاف، حتى إنه إذا بنى مسجدا وأذن للناس بالصلاة فيه جماعة فإنه يصير مسجدا اهـ ويصح أن يراد بالفعل الإفراز، ويكون بيانا للشرط المتفق عليه عند الكل كما قدمناه من أن المسجد لو كان مشاعا لا يصح إجماعا وعليه فقوله عند الثاني مرتبط بقول المتن بقوله: جعلته مسجدا وليست الواو فيه بمعنى أو فافهم."
(كتاب الوقف،4 / 355، ط: سعيد)
البحر الرائق میں ہے:
"(قوله ومن جعل مسجدا تحته سرداب أو فوقه بيت وجعل بابه إلى الطريق وعزله أو اتخذ وسط داره مسجدا وأذن للناس بالدخول فله بيعه ويورث عنه) لأنه لم يخلص لله تعالى لبقاء حق العبد متعلقا به والسرداب بيت يتخذ تحت الأرض لغرض تبريد الماء وغيره كذا في فتح القدير وفي المصباح السرداب المكان الضيق يدخل فيه والجمع سراديب. اهـ.
وحاصله أن شرط كونه مسجدا أن يكون سفله وعلوه مسجدا لينقطع حق العبد عنه لقوله تعالى {وأن المساجد لله} [الجن: 18]".
(كتاب الوقف، 5/ 271، ط: دار الکتاب الإسلامي)
حلبی کبیری میں ہے:
"وفي الفتاوی الغیاثیة: لوصلی الجمعة في قریة بغیر مسجد جامع والقریة کبیرة لها قری وفیها وال وحاکم جازت الجمعة بنوا المسجد أو لم یبنوا … والمسجد الجامع لیس بشرط، ولهذا أجمعوا علی جوازها بالمصلی في فناء المصر."
(فصل في صلاة الجمعة، ص:551، ط: سہیل اکیڈمی)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144606100440
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن