بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

بلوغت کی عمر یاد نہ ہو تو قضا نمازوں کا حساب کیسے کیا جائے؟


سوال

بالغ ہونے کے بعد قضا نماز کا حساب قمری مہینے سے لگایا جاتا ہے یا عیسوی مہینے سے ؟ مجھے اپنی بلوغت کی عمر یاد نہیں،  نماز کا حساب کیسے لگا یا جائے گا ؟ قضا نماز کو تخفیف کے ساتھ ادا کر سکتے ہیں؟

جواب

واضح رہے کہ بلوغت کا مدار علامتِ بلوغت پر ہے، اگر کسی لڑکے میں بلوغت کی علامت (مثلًا احتلام ہونا یا بیوی کو حاملہ کرنا) پائی جائے تو وہ بالغ سمجھا جائے گا، خواہ اس کی عمر پندرہ سال سے کم ہو، اور اگر بلوغت کی کوئی علامت نہ پائی جائے تو قمری اعتبار سے پندرہ سال عمر پوری ہوتے ہی لڑکا بالغ سمجھا جائے گا۔ اور بلوغت کی کم سے کم عمر بارہ سال ہے، اس سے کم عمر میں بلوغت کی علامت معتبر نہیں ہیں۔

لہٰذا صورتِ  مسئولہ میں خوب غور کرلیا جائے، پس جس عمر میں بالغ ہونے کا غالب گمان ہو اس کا اعتبار کر کے نمازوں کا حساب کیا جائے، اور علامت کے پائے جانے کا اندازا لگانا مشکل ہو تو جب قمری اعتبار سے آپ کی عمر پندرہ سال ہوئی تھی اس وقت سے قضا نمازوں کا حساب کرکے قضا نمازیں پڑھنا شروع کردیجیے۔

نیز قضا  نمازوں میں سنن و نوافل کی قضا  نہیں کی جائے گی، صرف فرض اور وتر کی قضا  کی جائے گی، یہی ان نمازوں میں تخفیف ہے۔ نمازوں کی قضا  میں قمری یا شمسی تاریخوں کے حساب کی کوئی پابندی نہیں، البتہ  بلوغت اور نمازوں کی فرضیت میں قمری سال کا اعتبار ہوتاہے، بلوغت کے بعد جتنے  دنوں کی  نمازیں قضا ہوئی ہوں، ان کا حساب کرکے ادا کیا جائے۔

مزید تفصیل کے لیے  دیکھیے:

قضائے عمری کا طریقہ

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144207201264

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں