ہم نے ایک لاکھ بزنس میں لگائےہیں جو کہ ہمارے پاس نہیں ہیں تو کیا ان پیسوں کی زکاۃ دے سکتے ہیں ؟
کاروبار میں رقم لگانے سے مراد اگر یہ ہے کہ اُس ایک لاکھ کا مال لیا ہوا ہے (مثلًا جس کے پاس رقم لگائی ہے اس نے اس رقم سے بیچنے کے لیے سامان لیا ہے) تو یہ مالِ تجارت ہوگیا اور مالِ تجارت کی زکاۃ لازم ہوتی ہے۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2 / 272):
"(وما اشتراه لها) أي للتجارة (كان لها) لمقارنة النية لعقد التجارة (لا ما ورثه ونواه لها) لعدم العقد إلا إذا تصرف فيه أي ناويا فتجب الزكاة لاقتران النية بالعمل".
اور اگر اس کے علاوہ کچھ اور مراد ہے تو اُس کی وضاحت فرماکر دوبارہ سوال بھیج دیں ۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144209201940
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن