کسی مرد کے لیے کیا یہ عمل درست ہے کہ وہ اپنی والدہ اور بہنوں کی ناجائز باتوں پر چپ لگائے اور ان کی باتوں میں آکر اپنی بیوی کے ساتھ بد سلوکی کرے ؟بیوی کو نان نفقہ نہ دے؟ بچوں کی تربیت اور خرچے میں ساتھ نہ دے ؟اس کو صرف اپنے گھر والوں سے لگاؤہو، بیوی اس صورت میں کیاکرے جب کہ شوہر طلاق دینے پر بھی آمادہ نہ ہو؟
شریعت نے والدہ ،بہنوں اور بیوی میں سے ہر ایک کے جدا حقوق رکھے ہیں، جس طرح مرد پر اپنی والدہ اور بہنوں کے ساتھ حسن سلوک لازم ہے ،اسی طرح بیوی کے ساتھ درست رویے سے پیش آنا، اچھا سلوک کرنا اور اس کانان و نفقہ ادا کرنا، بچوں کا خرچہ اور ان کی تربیت یہ بھی شرعی حقوق ہیں۔اگر شوہر بہنوں اور والدہ کی باتوں میں آکر بے جا طور پر بیوی کے ساتھ سخت رویہ اپناتاہے، بدسلوکی کرتا ہے تو بیوی کے حقوق کی پامالی کی وجہ سے اللہ کے ہاں مجرم ٹھہرے گا۔میاں بیوی میں اختلافات کی اصل وجہ ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی کرنا ہوتاہے،اس لیے بہتر یہی ہے کہ گھر کا ہر فرد دوسرے کے حق کو پہچانے اور اس کی ادائیگی کی جستجو کرتا رہے،شوہر کو اپنی والدہ اور بہنوں کی باتوں میں آکر اپنی بیوی سے بدگمان ہونے کے بجائے اس کے حقوق کو سمجھ کر اس کی ادائیگی کی کوشش کرنی چاہیے ، نیز والدہ کے حقوق کی ادائیگی بھی بیٹے کی شرعی ذمہ داری ہے؛ لہذا ان کے حق میں کوتاہی کی بھی اجازت نہیں ہے، گھریلو سکون کے لیے فیصل بننے کے بجائے ہر ایک کو اس کا منصب دیتے ہوئے اِفہام و تفہیم سے زندگی گزارنے کی کوشش کرنا ہی راحت کا ذریعہ ہوتاہے۔
دوسری جانب بیوی کو بھی طلاق کے معاملے میں جلد بازی سے کام نہیں لینا چاہیے، طلاق اللہ کے ہاں ناپسندیدہ چیزوں میں سے ہے، اورشرعی اعذار کے بغیر طلاق دینا یا طلاق کا مطالبہ کرنا دونوں عمل درست نہیں ہیں، اگر وقتی طور پر شوہر حسن سلوک نہیں کرتا تو بیوی کو چاہیے کہ وہ اپنے شوہر کو حکمت و بصیرت کے ساتھ سمجھائے، اور اگر شوہر کو گھریلومعاملے میں کسی قسم کی شکایت یا غلط فہمی ہوتو اس کے ازالے کی کوشش کرے، اپنے کسی فعل سے شوہر کو متنفر نہ کرے، حتی الامکان صبر و شکر سے کام لے،امید ہے کہ اللہ تعالیٰ مستقبل میں اس کا بہتر بدلہ عطا فرمائیں۔
لہذا شوہر اور بیوی دونوں کو ایک دوسرے کے حقوق جان کر ان کی ادائیگی کی فکر کرنی چاہیے۔طلاق کے معاملے میں جلد بازی سے کام لینے کے بجائے معاملات کو سلجھانے کی کوشش کرنی چاہیے،بیوی قصوروار نہ ہو اور صبر کرے تو اس کا بہتر بدلہ اسے دنیا و آخرت میں نصیب ہوگا۔
الله تعالي كا فرمان هے:
"يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَنْ تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَى مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ ."(الحجرات:6)
مذکورہ آیت کی تفسیر میں مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
خلاصٔہ تفسیر: اے ایمان والو! اگر کوئی شریر آدمی تمہارے پاس کوئی خبر لائے ( جس میں کسی کی شکایت ہو) تو (بدون تحقیق کے اس پر عمل نہ کیا کرو بلکہ اگر عمل کرنا مقصود ہو تو) خوب تحقیق کرلیا کرو کبھی کسی قوم کو نادانی سے کوئی ضرر نہ پہنچا دو پھر اپنے کئے پر پچھتانا پڑے۔
امام جصاص نے احکام القرآن میں فرمایا کہ اس آیت سے ثابت ہوا کہ کسی فاسق کی خبر کو قبول کرنا اور اس پر عمل کرنا اس وقت تک جائز نہیں جب تک دوسرے ذرائع سے تحقیق کر کے اس کا صدق ثابت نہ ہو جائے ، کیوں کہ اس آیت میں ایک قراءت تو فتثبتواکی ہے جس کے معنی ہیں کہ اس پر عمل کرنے اور اقدام میں جلدی نہ کرو ، بلکہ ثابت قدم رہو جب تک دوسرے ذرائع سے اس کا صدق ثابت نہ ہو جائے اور جب فاسق کی خبر کو قبول کرنا جائز نہ ہوا تو شہادت کو قبول کرنا بدرجہ اولیٰ ناجائز ہوگا کیونکہ ہر شہادت ایک خبر ہوتی ہے جو حلف و قسم کے ساتھ موکد کی جاتی ہے ، اسی لئے جمہور علماء کے نزدیک فاسق کی خبر یا شہادت شرعاً مقبول نہیں۔
(معارف القرآن مفتی شفیع صاحبؒ:ج: 8 ص:105، ط: مکتبہ معارف القرآن)
صحيح البخاري میں ہے:
"5199 - حدثنا محمد بن مقاتل، أخبرنا عبد الله، أخبرنا الأوزاعي، قال: حدثني يحيى بن أبي كثير، قال: حدثني أبو سلمة بن عبد الرحمن، قال: حدثني عبد الله بن عمرو بن العاص، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «يا عبد الله، ألم أخبر أنك تصوم النهار وتقوم الليل؟» قلت: بلى يا رسول الله، قال: «فلا تفعل، صم وأفطر، وقم ونم، فإن لجسدك عليك حقا، وإن لعينك عليك حقا، وإن لزوجك عليك حقا»."
(صحیح البخاری: کتاب النکاح، باب لزوجك علیك حق، ج:7 ص:31، ط: دار طوق النجاة)
ترجمہ:حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عبداللہ! کیا مجھے خبر نہیں دی گئی کہ تم دن میں روزہ رکھتے ہو اور رات بھر قیام کرتے ہو؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں، اے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ایسا نہ کرو، روزہ رکھو اور افطار کرو، قیام کرو اور آرام کرو، کیوں کہ تمہارے جسم کا تم پر حق ہے، تمہاری آنکھوں کا تم پر حق ہے، اور تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے۔
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144211200677
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن