ایک بالغ شخص ہے جو ذہنی اعتبار سے بیمار ہے یعنی عقل کام نہیں کرتی، چھوٹے بچوں کی طرح حرکت کرتا ہے، اس کی دیکھ بھال اس کی ماں کرتی ہے، قریبی رشتہ دار اس کو زکات کی رقم ہرسال دیتے ہیں، جو اس کی ماں کے سپرد کرتے ہیں، اس کی ماں اس رقم کو حفاظت سے اپنے پاس رکھتی ہے، کہ وقت ضرورت اس کے بچے کے لیے کام آئے گا اب مسئلہ یہ ہے کہ وہ رقم زکات کے نصاب کو پہنچ گئی، سوال یہ ہے کہ اس کا کیا حکم ہے آیا زکات دینی ہے یانہیں؟
اگر زکات کی رقم واقعتًا مذکورہ شخص کے لیے بطورِ وکالت اس کی والدہ کو دی جاتی ہے، اور وہ رقم نصاب کی مقدار کو پہنچ چکی ہے تو بھی مذکورہ شخص کے مال پر زکات فرض نہیں ہے، اور نہ ہی اس کے ولی یا وکیل پر اس کے مال سے زکات ادا کرنا ضروری ہے، البتہ اس کے لیے مزید زکات وصول کرنا جائز نہیں ہوگا۔
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:
"(ومنها) العقل عندنا فلا تجب الزكاة في مال المجنون جنونا أصليا."
(کتاب الزکوۃ، فصل: شرائط فرضیۃ الزکوۃ، ج:2، ص:05، ط:دارالکتب العلمیۃ)
فتاوی عالمگیری (الفتاوى الهندية ) میں ہے:
" لايجوز دفع الزكاة إلى من يملك نصابًا أي مال كان دنانير أو دراهم أو سوائم أو عروضا للتجارة أو لغير التجارة فاضلًا عن حاجته في جميع السنة، هكذا في الزاهدي."
(كتاب الزكوة، ج:1، ص:189، ط:مكتبه رشيديه)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144209202213
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن