بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

کال سینٹر میں کام کا حکم


سوال

 میں کال سینٹر میں جاب کرنا شروع کر رہا تھا اور یہ جو ہماری کمپین ہے  ایکسیڈنٹ کلیم ہیلپ لائن ،اس کے اندر شروع میں برطانیہ کے کلائنٹس کو یہ بتایا جاتا ہے کہ میرا نام جون ہے یا جیک ہے، انگریزی نام بتایا جاتا ہے اور پھر بعد میں ان کو یہ شو کیا جاتا ہے کہ ہم بھی  ان ہی کے ملک میں بیٹھ کر ان سے سودا کر رہے ہیں، حالاں کہ  جھوٹ بولا کہ  ملک میں بیٹھ کر ان سے سودا کر رہے ہیں، یہ ان کے ساتھ جھوٹ بولا جاتا ہے تو آپ مجھے آگاہ کر دیں کہ یہاں کال سینٹر پر کام کرنا جائز ہوگا کہ نہیں؟

جواب

 صورت ِ مسئولہ میں کال سینٹر میں کام کی حیثیت شرعاً  کمیشن ایجنٹ کی ہے ،اگر کام جائزاشیاء کا  ہو،  اس میں کوئی شرعی خرابی نہ ہو تو کال سینٹر میں کام کرنا جائز ہے ،لیکن چوں کہ  اس میں عمومًا جھوٹ بولنا پڑتا ہے  جیساکہ آپ کے سوال سے بھی واضح ہے، کال سینٹر والے اپنے آپ کو اسی ملک کا ظاہر کرتے ہیں جس ملک میں کمپنی ہوتی ہے، اور اپنا نام بھی ان ہی ملکوں کے رہائشیوں کی طرح بتاتے ہیں ؛ تاکہ خریدار یہ سمجھے کہ یہ ہماری ملک میں ہی بیٹھ کر ہم سے سودا کررہے ہیں ؛ لہذا کال سینٹر  کے کام میں اس طرح جھوٹ بولنا پڑتا ہو تو اس میں کام کرنا شرعًا جائز نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے :

"وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به و إن كان في الأصل فاسدًا؛ لكثرة التعامل و كثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام."

(کتاب الاجارۃ،مطلب  فی اجرۃ الدلال ،ج:6،ص:63،سعید)

بدائع الصنائع میں ہے:

"و على هذا يخرج الاستئجار على المعاصي أنه لايصح لأنه استئجار على منفعة غير مقدورة الاستيفاء شرعًا كاستئجار الإنسان للعب واللهو، وكاستئجار المغنية، والنائحة للغناء، والنوح ... وكذا لو استأجر رجلًا ليقتل له رجلًا أو ليسجنه أو ليضربه ظلمًا وكذا كل إجارة وقعت لمظلمة؛ لأنه استئجار لفعل المعصية فلايكون المعقود عليه مقدور الاستيفاء شرعا، فإن كان ذلك بحق بأن استأجر إنسانًا لقطع عضو جاز."

(کتاب الاجارۃ،فصل فی شرائط رکن انواع الاجارۃ،ج:4،ص:189،دارالکتب العلمیۃ)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144511102060

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں