بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

کیمرے کی تصاویر حکومت کو دینا تاکہ چوروں کو پکڑ سکے


سوال

اگر میں اپنے نصب کئے ہوئے کیمروں کی تصاویر  حکومتِ وقت کے ساتھ شیئر کروں چوروں اور شرپسندوں کے پکڑنے کے لئے تو کیا یہ جائز ہے یا نہیں؟

جواب

ذی روح جاندار کی تصویر بنانا شرعا جائز نہیں ہے ،چاہے وہ ہاتھ سے کسی کاغذ پر بنائی جائے یا ڈیجیٹل آلات وغیرہ سے بنائی جائے ،لہذاصورت مسئولہ میں سائل کا کیمرے نصب کرنا  ہی شرعا جائز نہیں ہے؛اس لئے کہ سائل ان کیمروں کی ذریعہ تصاویر اور ویڈیوز بنانے والے شمار ہوگا اور احادیث مبارکہ میں ذی روح جاندار کی تصویر بنانے پر سخت وعید وارد ہوئی ہے۔

نیز جس طرح سائل کا کیمرے نصب کرنا شرعا جائز نہیں ہے اسی طرح ان کیمروں سے بننے والی تصاویر اور ویڈیوز کو محفوظ رکھنا اور آگے کسی (حکومت وقت وغیرہ) کو بھیجنا بھی  درست نہیں ہے۔

حدیث شریف میں ہے:

"عن نافع: أن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما أخبره: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: (إن الذين يصنعون هذه الصور يعذبون يوم القيامة، يقال لهم: أحيوا ما خلقتم."

 (صحيح البخاري: كتاب اللباس، باب عذاب المصورين يوم القيامة،5 / 2220، ط: دار ابن كثير)

حدیث شریف میں ہے:

"وعن عبد الله بن مسعود قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «أشد الناس عذابا عند الله المصورون»."

 (مشکاۃ المصابیح: کتاب اللباس، باب التصاویر،2 /1247،ط:المکتب الاسلامی)

البحر الرائق میں ہے:

"وظاهر ‌كلام ‌النووي ‌في ‌شرح ‌مسلم ‌الإجماع ‌على ‌تحريم ‌تصويره صورة الحيوان وأنه قال قال أصحابنا وغيرهم من العلماء تصوير صور الحيوان حرام شديد التحريم

وهو من الكبائر لأنه متوعد عليه بهذا الوعيد الشديد المذكور في الأحاديث."

(کتاب الصلاۃ،باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها،2 /2،ط:دار الکتب الاسلامی)

 فتاوی شامی میں ہے:

"وظاهر كلام ‌النووي في شرح مسلم الإجماع على تحريم تصوير الحيوان، وقال: وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره، فصنعته حرام بكل حال لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى، وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم وإناء وحائط وغيرها اهـ فينبغي أن يكون حراما لا مكروها إن ثبت الإجماع أو قطعية الدليل بتواتره اهـ كلام البحر ملخصا."

(كتاب الصلاة، باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها، 647/1، ط: سعيد)

ایضاً: 

"وأما فعل التصوير فهو غير جائز مطلقا لأنه مضاهاة لخلق الله تعالى".

(كتاب الصلاة، باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها، 650/1، ط: سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144602100841

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں