بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

سی بی اے کمپنی کے ساتھ ایزی پیسہ کا معاملہ اوراس کا حکم


سوال

میں ایک کمپنی-جس کانام CBAہے-میں ڈسٹری بیوٹریابزنس پارٹنرہوں، CBAکمپنی جوکہ جیزکیش اورایزی پیسہ کاڈائریکٹ ڈسٹری بیوٹرہےاورمیں CBAکاڈسٹری بیوٹرہوں،چندماہ قبل جب میراCBA ڈسٹری بیوشن لینےکاارادہ ہوا،تواس کمپنی کےمنیجرنےماہانہ انکم کےبارےمیں بتایاکہ جس میں ایک ذریعہ ایک لاکھ کےکریڈٹ پرریٹیلرسے100روپےکی کٹوتی کےبارےمیں بتایا۔

اب سلسلہ یہ ہےکہ میں پچھلےڈھائی ماہ سےCBAکمپنی کافرنچائزی ہوں،CBAکمپنی مجھے جیزکیش اورایزی پیسہ دیتی ہےجوکہ میں آگےمارکیٹ میں ریٹیلرکودیتاہوں،چندروزقبل میرےایک ریٹیلرنےفتویٰ لیاجس میں یہ بتایاکہ ایک لاکھ پر100روپےکٹوتی ناجائزاورحرام ہے،جس کی کاپی سوال کےساتھ منسلک ہے،اب اس ریٹیلرکاکہنایہ ہےکہ آپ کٹوتی کےبجائےجوبھی PROFITہوگااس میں سےآدھایاکچھ متعین فیصدآپ کودوں گا،تواس سےہم حرام سےبچ جائیں گےاورآپ کاروزگاربھی چلتارہےگا۔

CBAکمپنی کےساتھ کام کاطریقۂ کارایساہےکہ ہم CBAکےبینک اکاؤنٹ میں پیسےڈپازٹ یاجمع کرواتےہیں اس کےبدلےوہ مجھےجازکیش اورایزی پیسہ کافنڈدیتےہیں،جوکہ میں آگےریٹیلرکوکیش یاکریڈٹ کی صورت میں دیتاہوں اوراکثرCBAکمپنی مجھےبھی کریڈٹ فنڈبھی دیتی ہے،مگرکریڈٹ فنڈپرمجھےیاکسی بھی فرنچائزی کو"پروموکمیشن یاایکسٹراکمیشن"نہیں دیتی۔

دوسراطریقہ یہ ہےکہ ہمارےکچھ ریٹیلرجوکیش پرفنڈلیتےہیں انہیں ہم ایک لاکھ کےبدلےایک لاکھ فنڈڈالتےہیں،جب کہ کریڈٹ پرکوئی ریٹیلرایک لاکھ فنڈکی ڈیمانڈکرتاہےتواس کوہم 99900ڈالتےہیں جوکہ ریٹیلرکی رضامندی سےکیاجاتاہے،جب کہ ریٹیلرجب پیسےمیرےاکاؤنٹ میں جمع کرواتاہےتووہ پورےایک لاکھ جمع کرواتاہے؛کیوں کہ اگریہ رقم کی کٹوتی نہ کی جائےتوہماری انکم نہ ہونےکےبرابررہ جائےگی۔

میری گزارش یہ ہےکہ اس میں میری راہ نمائی کریں ،تاکہ ہم حرام سےبچ سکیں،نیزجہاں ہم غلط ہیں اس کاجائزطریقہ ہمیں سمجھادیں گےتومیں اورمیرےریٹیلرحرام سےبچ سکیں گے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں CBA کمپنی والےاپنےایزی پیسہ اکاؤنٹ سےجوفنڈکریڈٹ کی صورت میں سائل کےایزی پیسہ اکاؤنٹ میں  منتقل کرتےہیں ، اسی طرح سائل اپنےایزی پیسہ سےجوفنڈکریڈٹ کی صورت میں دکاندارکےایزی پیسہ یاپرسنل اکاؤنٹ میں ٹرانسفرکرتاہے، اس کی حیثیت شرعاًقرض/ادھار کی ہےاورقرض کاشرعی ضابطہ یہ ہےکہ جتناقرض لیاجائےاتناہی واپس کرناضروری ہے، اس میں کمی بیشی جائزنہیں، جب کہ مذکورہ دونوں صورتوں میں فنڈکریڈٹ کی صورت میں ٹرانسفرکرنےوالاایک لاکھ روپےمیں 50یا100روپےپیشگی کاٹ لیتاہے، لہٰذامذکورہ دونوں صورتیں سودپرمشتمل ہونےکی وجہ سےناجائزہیں، البتہ جوازکی صورت یہ ہوسکتی ہےکہ سائلCBA کمپنی سےفنڈایزی پیسہ اکاؤنٹ کےبجائےاپنےپرسنل اکاؤنٹ میں کیش کی صورت میں ڈالوائے، پھراسی پرسنل اکاؤنٹ سےسائل اپنےریٹیلرکوبقدرِضرورت کیش یاکریڈٹ فنڈکی صورت میں بھیج دیاکرےاوراس بھیجنےاوراپنےڈیوائسزاستعمال  کرنےکےعوض ریٹیلر سے کوئی مناسب طے شدہ اجرت لےلیاکرے،البتہ اس میں بھی یہ خیال رہےکہ اجرت کی رقم فنڈسےنہ کاٹےبلکہ دکاندارسےبراہ راست وصول کرے۔

احکام القرآن للجصاص میں ہے:

"والربا الذي ‌كانت ‌العرب ‌تعرفه وتفعله إنما كان فرض الدراهم والدنانير إلى أجل بزيادة على مقدار ما استقرض على ما يتراضون به".

(سورة البقرة، باب الربا، ج:1، ص:563، ط:دار الكتب العلمية)

الاختیارلتعلیل المختارمیں ہے:

"وهو في اللغة: الزيادة...وفي الشرع: الزيادة المشروطة في العقد.....والأصل في تحريمه قوله تعالى:{وأحل الله البيع وحرم الربا} وقوله: {‌لا ‌تأكلوا ‌الربا}".

(كتاب البيوع، باب الربا، ج:2، ص:30، ط:مطبعة الحلبي، القاهرة)

البحرالرائق میں ہے:

"(قوله: بل بالتعجيل أو بشرطه أو بالاستيفاء أو بالتمكن) ‌يعني ‌لا ‌يملك ‌الأجرة إلا بواحد من هذه الأربعة والمراد أنه لا يستحقها المؤجر إلا بذلك كما أشار إليه القدوري في مختصره لأنها لو كانت دينا لا يقال أنه ملكه المؤجر قبل قبضه وإذا استحقها المؤجر قبل قبضها فله المطالبة بها".

(كتاب الإجارةفي بدايته، ج:7، ص:300، ط:دار الكتاب الإسلامي)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وهو في الشرع عبارة عن فضل مال لا يقابله عوض في معاوضة مال بمال".

(كتاب البيوع، الباب التاسع، الفصل السادس في تفسيرالربا، ج:3، ص:117، ط:المطبعة الكبري الأميرية)

وفيهاأيضاّ:

"وأما شرائط الصحة فمنها رضا المتعاقدين.....ثم الأجرة تستحق بأحد معان ثلاثة إما بشرط التعجيل أو بالتعجيل أو باستيفاء المعقود عليه فإذا وجد أحد هذه الأشياء الثلاثة فإنه يملكها، كذا في شرح الطحاوي".

 

(كتاب الإجارة، الباب الأول في تفسيرالإجارةوركنها، ج:4، ص:411-413، ط:المطبعة الكبري الأميرية)

تبیین الحقائق میں ہے:

"قال - رحمه الله - (ولو دفع غزلا لينسجه بنصفه أو استأجره ليحمل طعامه بقفيز منه أو ليخبز له كذا اليوم بدرهم لم يجز)؛ لأنه في الأولى والثانية جعل الأجر بعض ما يخرج من عمله فيصير في معنى قفيز الطحان، وقد نهي عنه - عليه الصلاة والسلام -"

(كتاب الإجارة، باب الإجارة الفاسدة، ج:5، ص:129، ط:المطبعة الكبري الأميرية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144604100848

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں