میرے والد صاحب کا انتقال ہوا، تو ورثاء میں ہم تین نابالغ بیٹیاں تھیں اور ایک بیوہ تھیں اور والد صاحب کے والدین بھی حیات تھے اور والد صاحب کے تین بھائی اور 9 بہنیں تھیں، والد صاحب کے بھائیوں نے سارا ترکہ آپس میں تقسیم کرلیا اور ہمارے مطابے پر کہا کہ ہم نے تمہارے والد کے پیچھے خیرات کری ہے، ساراحصہ وغیرہ ختم ہوگیا، کیا یتیموں کے مال سے خیرات کرنا جائز ہے؟ کیا والد صاحب کا ترکہ ان کے بھائی اس طرح تقسیم کرسکتے ہیں یا نہیں؟
واضح رہے کہ کسی شخص کے انتقال کے بعد اس کے ترکہ پر اس کے شرعی ورثاء کا حق ہوتا ہے، میت کے کسی رشتہ دار کا ترکہ پر قبضۃ کرنا اور اس کو غصب کرلینا اور ورثاء کو ان کا شرعی حق نہ دینا سخت گناہ ہے، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں والد کے انتقال کے بعد والد کے ترکہ پر بھائیوں کا قبضہ کر کے اس کو آپس میں تقسیم کر لینا یا مرحوم بھائی کے ترکہ میں سے ورثاء کی اجازت اور دلی رضامندی کے بغیر خیرات کرنا شرعا ناجائز اور گناہ کا کام ہے، سائل کے ان بھائیوں پر لازم ہے کہ اپنے مرحوم بھائی کے ترکہ میں سے ان کے ورثاء کو ان کا حق دیں اور اللہ تعالٰی کے حضور اپنے اس قبیح عمل پر توبہ و استغفار کریں اور اگر ترکہ سے مراد سائل کے دادا دادی کا ترکہ ہے، تو سائل کے والد چوں کہ سائل کے دادا، دادی کی حیات میں فوت ہوگئے، اس لیے سائل کے والد کا اس میں کوئی حصہ نہیں تھا، ایسی صورت میں سائل کے چچاؤں کا اپنے والدین کا ترکہ باہم تقسیم کرنا شرعاً درست تھا۔
حدیث شریف میں ہے:
"وعن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من قطع ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة» . رواه ابن ماجه."
(كتاب الفرائض، ج:2، ص:926، ط:المكتب الاسلامي)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144609100881
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن