بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

چچی کو شہوت کے ساتھ چھونے یا دیکھنے سے اس کی بیٹی حرام ہوجائے گی یا نہیں ؟


سوال

کیا چچی کو شہوت کے ساتھ چھونے یا دیکھنے سے ان کی بیٹی حرام ہو جائے گی ؟ اور کیا ان کے بیٹے بیٹیاں بھی چھونے والے کے بیٹے بیٹیوں پر حرام ہو جائیں گی؟ اور کوئی شخص اپنی پھوپھی،خالہ، دادی، نانی اپنی ماں یا اپنی چچی کو شہوت سے دیکھے اور چھوئے تو کیا  اس مرد پر اپنی بیوی حرام ہوجاتی ہے؟

جواب

واضح رہے کہ اگر کوئی شخص کسی عورت سے زنا کر ے یا شہوت کے ساتھ اس  کے جسم کو صرف ہاتھ لگائے یا شہوت سے  بوسہ لے یا شرمگاہ کے اندرونی حصہ کو شہوت  کے ساتھ دیکھے، تو ان سب صورتوں میں حرمت مصاہرت قائم ہو جا تی ہے ، یعنی اس مرد پر اس عورت کے اصول(والدہ ،دادی ،نانی وغیرہ ) و فروع(بیٹیاں ، پوتیاں ، نواسیاں وغیرہ) اور اس عورت پر اس مرد کے اصول (والد ، دادا ، ناناوغیرہ )وفروع (بیٹا ،  پوتا ،نواسہ وغیرہ )حرام ہوجاتے ہیں ،اسی طرح اگر  کو ئی عورت کسی مرد کو شہوت کے ساتھ  ہاتھ لگائے یا شہوت سے اس کا بوسہ لے یا عضو مخصوص  کو شہوت سے دیکھےتو اس عورت پر اس مرد کے اصول و فروع  اور اس مرد پر اس عورت کے اصول وفروع حرام ہوجاتے ہیں ۔

نظر سے حرمت کے ثبوت کے لیے ضروری ہے کہ جو   دیکھےاس کو شہوت ہو   ،اسی طرح دیکھنے والا اگر مرد ہے تو اس نے عورت کی شرمگاہ کے اندرونی حصہ کودیکھا ہو اور اگر دیکھنے والی خاتون ہے تو اس نے مرد کےعضو مخصوص  کو  دیکھا ہو ، اس کے علاوہ دیگر اعضاء کوشہوت کے ساتھ دیکھنے سے حرمت ثابت نہیں ہوتی ۔

چھونےسے حرمت کے ثبوت کے لیے ضروری ہے کہ  کسی   ایک جانب سے   شہوت ہو  ، درمیا ن میں کو ئی کپڑا  حائل نہ ہو اور اگر حائل ہو تو ا تنا باریک  ہو کہ چھونے والا  جسم کی حرارت محسوس کرے، شہوت چھونے کے ساتھ ملی ہوئی ہو،شہوت تھمنے سے پہلے انزال نہ ہوگیا ہو ، عورت کی عمر کم از کم نو سال اور مرد کی عمر کم ازکم بارہ سال ہو،اگر  یہ تمام شرائط پائی جائیں ، تو ان دونوں کے درمیان   حرمتِ مصاہرت قائم ہوجائےگی ۔

چچی کو  شہوت کے ساتھ چھونےسےصرف چھونے والے مرد  پر  چچی کے  اصول وفروع حرام ہوجاتے ہیں، اسی طرح صرف چچی پرچھونے والےمرد   کے اصول و فروع  حرام  ہوجاتے ہیں   ،البتہ ان دونوں کی اولادآپس میں  ایک دوسرے پر حرام نہیں ہوتی  ،وہ  آپس  میں ایک دوسرے سے  نکاح کر سکتے ہیں ۔

اگرچھونے والے مرد کے نکاح میں پھوپھی زاد ،خالہ زاد  لڑکی ہویا پھوپھی ،خالہ کے فروع میں  سے کو ئی بھی  لڑکی  ہو  ،تو پھوپھی،خالہ  کو شہوت کے ساتھ چھونے سے   اس پر  اپنی بیوی حرام ہوجائے گی ،اور اگر اس کے علاوہ کوئی اور ایسی لڑکی نکا ح  میں  ہے، جو ان کے فروع میں سے نہ ہو  ،تو ان کو شہوت کے ساتھ چھونے سے اس  مرد پر اپنی بیوی حرام نہیں ہوگی ۔بھتیجا کا پھوپھی  کو شہوت سے چھونے سےپھوپھی پھوپھا پر حرام نہیں ہوگی۔ 

چھونے والےکے نکاح میں دادی اور نانی کے فروع میں سے کو ئی لڑکی ہو(مثلاً  پھوپھی زاد یا خالہ زاد وغیرہ  )تو دادی و نانی کو شہوت کے ساتھ چھونے سے اس مرد پر اپنی بیوی حرا م ہو جائے گی ،اور اگر کوئی اورایسی لڑکی نکاح میں ہو ،جوان کے فروع میں سے  نہ ہو ،تو ان کو شہوت کے ساتھ چھونے سے  اس مرد پر اپنی بیوی حرام نہیں ہوگی ۔البتہ پوتے کا اپنی دادی کو ،نواسہ کا اپنی نانی کوشہوت کے ساتھ دیکھنے چھونےسے دادی داداپر ،نانی ناناپر  حرام ہوجائےگی ۔

اپنی ماں کو شہوت کے ساتھ چھونے سے بیٹے پراپنی بیوی حرام نہیں ہوتی ،البتہ بیٹے کی ما ں بیٹے کے والد پر حرام ہوجائےگی ۔ 

       فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: وحرم أيضا بالصهرية أصل مزنيته) قال في البحر: أراد بحرمة المصاهرة الحرمات الأربع حرمة المرأة على أصول الزاني وفروعه نسبا ورضاعا وحرمة أصولها وفروعها على الزاني نسبا ورضاعا كما في الوطء الحلال ويحل لأصول الزاني وفروعه أصول المزني بها وفروعها....(قوله: والمنظور إلى فرجها) قيد بالفرج؛ لأن ظاهر الذخيرة وغيرها أنهم اتفقوا على أن النظر بشهوة إلى سائر أعضائها لا عبرة به ما عدا الفرج۔"

 (کتاب النکاح ، فصل في المحرمات ، ج : 3 ، ص : 32,33 ، ط : سعید)

وفیہ ایضاً:

"ومقتضى تقييده بالفرع والأصل أنه لا خلاف في عدم الحرمة على غيرهما من الحواشي كالأخ والعم"

 (کتاب النکاح ، فصل في المحرمات ، ج : 3 ، ص : 31 ، ط : سعید)

وفیہ ایضاً:

(وتكفي الشهوة من إحداهما) هذا إنما يظهر في المس أما في النظر فتعتبر الشهوة من الناظر، سواء وجدت من الآخر أم لا. 

 (کتاب النکاح ، فصل في المحرمات ، ج : 3 ، ص : 36 ، ط : سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وكما تثبت هذه الحرمة بالوطء تثبت بالمس والتقبيل والنظر إلى الفرج بشهوة۔والمباشرة عن شهوة بمنزلة القبلة وكذا المعانقة وهكذا في فتاوى قاضي خان. وكذا لو عضها بشهوة هكذا في الخلاصة۔ فإن نظرت المرأة إلى ذكر الرجل أو لمسته بشهوة أو قبلته بشهوة تعلقت به حرمت المصاهرة، كذا في الجوهرة النيرة... والمعتبر النظر إلى الفرج الداخل هكذا في الهداية. وعليه الفتوى هكذا في الظهيرية وجواهر الأخلاطي. قالوا: لو نظر إلى فرجها وهي قائمة لا تثبت حرمة المصاهرة، وإنما يقع النظر في الداخل إذا كانت قاعدة متكئة، كذا في فتاوى قاضي خان۔۔۔ ولو مس شعرها بشهوة إن مس ما اتصل برأسها تثبت وإن مس ما استرسل لا يثبت.۔۔۔ "المس إنما يوجب حرمة المصاهرة إذا لم يكن بينهما ثوب، أما إذا كان بينهما ثوب فإن كان صفيقا لا يجد الماس حرارة الممسوس لا تثبت حرمة المصاهرة وإن انتشرت آلته بذلك، وإن كان رقيقا بحيث تصل حرارة الممسوس إلى يده تثبت، كذا في الذخيرة... والشهوة تعتبر عند المس والنظر حتى لو وجدا بغير شهوة ثم اشتهى بعد الترك لا تتعلق به الحرمة . ويشترط أن تكون المرأة مشتهاة، كذا في التبيين. والفتوى على أن بنت تسع محل الشهوة لا ما دونها... ووجود الشهوة من أحدهما يكفي وشرطه أن لا ينزل حتى لو أنزل عند المس أو النظر لم تثبت به حرمة المصاهرة. 

(كتاب النكاح ، الباب الثالث في بيان المحرمات ، القسم الثاني المحرمات بالصهرية ، ج : 1 ، ص : 274 ، 275 ، ط : دار الفکر بیروت)

محیط برہانی میں ہے:

"قال محمد رحمه الله في «الأصل» : إذا وطىء الرجل امرأة بنكاح أو ملك أو فجور حرمت عليه أمها وابنتها، وهو محرم لهما؛ لأنه لا يجوز له نكاحهما، وحرمت هي على آبائه وأبنائه، وكما ثبتت هذه الحرمة بالوطء تثبت بالمس والتقبيل والنظر إلى الفرج بشهوة۔"(‌‌كتاب النكاح ، ‌‌الفصل الثالث عشر في بيان أسباب التحريم ،ج : 3 ، ص : 63 ، ط : دار الکتب العلمیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509101385

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں