بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1446ھ 21 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

چلتے کاروبار میں رقم انویسٹ کرنے کی جائز وناجائز صورت


سوال

ایک شخص نے مجھ سے ایک کروڑ روپے کا مطالبہ کیا کہ وہ ان پیسوں سے کاروبار کرے گا اور ماہانہ ڈیڑھ لاکھ روپے مجھے نفع دے گا۔ اس شخص کا کاروبار سولر کا ہے، اس کا کاروبار  چل رہا ہے، دیگر کئی لوگوں نے اس میں پیسے لگائے ہوئے ہیں۔

اس حوالے سے شرعی رہنمائی درکار ہے کہ میں اس کے اس ساتھ معاملات کیسے کروں؟

جواب

واضح رہے کہ کاروباری معاملہ خواہ شرکت کا ہو یا مضاربت کا، اس میں نفع کا تعین طے شدہ رقم کے ساتھ کرنا شرعاً جائز نہیں، اس سے معاملہ فاسد ہوجاتا ہے۔نفع کا تعین حصوں کے اعتبار سے یا شرح فیصد کے اعتبار سے کرنا ضروری ہے۔ اور مضاربت اس معاملہ کو کہتے ہیں جس میں ایک شخص کا مال ہو اور دوسرےکی شخص کی محنت اور عمل ہو۔ مذکورہ تفصیل کی رو سے صورتِ مسئولہ میں سائل کا ایک کروڑ روپے دے کر ماہانہ ڈیڑھ لاکھ روپے متعین نفع لینا جائز نہیں ہے۔

معاملہ کے جواز کی  صورت یہ ہے کہ اگر سرمایہ صرف سائل کا ہو اور اس کی محنت ہو تو سائل سولر کے کاروبار کرنے والے کو ایک کروڑ روپے بطور مضاربت کے دے، جس سے وہ سولر خرید کر آگے فروخت کرے، نفع کا تناسب فیصد کے اعتبار سے طے کیا جانا ضروری ہے۔ اگر نقصان ہوجائے تو پہلے نفع سے اس کی تلافی کی جائے گی،  پھر سائل یعنی سرمایہ کار کے سرمایہ کا نقصان شمار ہوگا بشرطیکہ سولر کا کاروبار کرنے کی کوتاہی وغفلت کی وجہ سے نہ ہوا ہو اور ایسی صورت میں یہ شخص اس نقصان کا ضامن نہ ہوگا، اگر مضارب یعنی سولر کا کاروبار کرنے والے کی غفلت وکوتاہی کی وجہ سے نقصان ہوا تو وہ اس نقصان ضامن ہوگا۔

مبسوطِ سرخسی میں ہے:

"ولو اشترطا لرب المال من الربح مائة درهم والباقي للمضارب فهذه مضاربة فاسدة؛ لأن هذا الشرط يؤدي إلى قطع الشركة في الربح مع حصوله فربما لا يحصل إلا قدر المائة."

(کتاب المضاربة، ج:22، ص:27، ط: دار المعرفة)

الجوہرۃ النیرۃ میں ہے:

"(قوله: ومن شرطها أن يكون الربح بينهما مشاعا لا يستحق أحدهما منه دراهم مسماة) لأن شرط ذلك يقطع الشركة لجواز أن لا يحصل من الربح إلا تلك الدراهم المسماة قال في شرحه: إذا دفع إلى رجل مالا مضاربة على أن ما رزق الله فللمضارب مائة درهم فالمضاربة فاسدة."

(کتاب المضاربة، ج:1، ص:292، ط: المطبعة الخیریة)

تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق میں ہے:

"قال رحمه الله (وما هلك من مال المضاربة ‌فمن ‌الربح)؛ لأنه تابع ورأس المال أصل لتصور وجوده بدون الربح لا العكس فوجب صرف الهالك إلى التبع لاستحالة بقائه بدون الأصل كما يصرف الهالك  إلى العفو في الزكاة قال رحمه الله (فإن زاد الهالك على الربح لم يضمن المضارب)؛ لأنه أمين فلا يكون ضمينا للتنافي بينهما في شيء واحد."

(کتاب المضاربة، باب المضارب یضارب، ج:5، ص:67، ط: دار الکتاب الإسلامي)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(وأما) (حكمها) فإنه أولا أمين وعند الشروع في العمل وكيل وإذا ربح فهو شريك وإذا فسدت فهو أجير وإذا خالف فهو غاصب."

(کتاب المضاربة، الباب الثاني، ج:4، ص:288، ط: دار الفکر)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144607102394

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں