1۔شوہر کی انتہائی نااہلی اور غیرذمہ دارانہ رویہ کے سبب بیوی خلع لینے پر مجبور ہوگئی ہے کیا بیوی کا خلع لینا جائز ہے؟
2۔شادی طے ہوجانے کے بعد اور نکاح ورخصتی کے بعد بہت سے تحفے تحائف وجہیز لڑکی والوں کی طرف سے دیے گئے ،تو اس کامطالبہ کر نا صحیح ہوگا کہ جو چیز سلامت ہے وہ بعینہ واپس کردیں اور جوکیش کی صورت میں دی وہ کیش کی صورت میں لوٹادیاجائے،جہیز کا سامان تولڑکی کا ہے اور جہاں تک تحفے تحائف کا معاملہ ہے تو کشیدگی کے وقت لڑکے والوں کی طرف سے بوقت رخصتی دیے ہوئے کپڑے اور ناک کا لونگ وغیرہ واپس لے لیا ،اسی بناء پر ہم بھی لڑکے کو دیے گیے تحائف بصورتِ کیش واشیاء واپسی کا مطالبہ کر تے ہیں، یہ کیساہے؟
3۔نکاح کےبعد جب بھی لڑکی بیمار ہوئی ،اس کے ہسپتال کے اخراجات لڑکی کے والد نے برداشت کیے ،تو یہ اخراجات کس کے ذمہ تھے؟اورکیا لڑکےسے ان اخراجات کا مطالبہ کرنا صحیح ہے؟
4۔حقِ مہر جو بوقت نکاح اداکردیا گیا تھا ،تقریباًسات ماہ بعد شوہر نے اپنی ضرورت اور گھر کے معاملات کے لیے یہ کہہ کرکہ بعد میں زیور بنادیا جائے گا،بیوی حقِ مہر عاریتاً شوہر کے حوالے کرتی ہےاس حقِ مہر کا کیا حکم ہے؟( مہر ایک تولہ سونا طے ہواتھا،جو کہ 5.600 ملی گرام ہی حوالہ کیا گیاتھا۔)
5۔نیز کیا بیوی کا اپنے شوہر سے الگ رہائش کا مطالبہ جس میں ایک کمرہ کچن اور باتھ روم کی سہولت ہو،غیر شرعی ہے؟
1۔صورتِ مسئولہ میں اگر میاں بیوی کے مابین اختلاف اور تنازع اس حد تک پہنچ جائے کہ ان کا آپس میں رہنا مشکل ہو جائے تو اولاً دونوں کے خاندان کے بڑ ے لوگوں کو چاہیے کہ وہ ان کے درمیان مصالحت کراکے اس مسئلہ کو حل کریں ،اگر مصالحت نہیں ہوسکتی ہے ،شوہر غیر ذمہ دارانہ رویہ سے باز نہیں آنا چاہتا، توا یسی صورت میں بیوی کے لیے خلع لینا جائز ہوگا،خلع لینے کے بجائے اولاً بیوی کو چاہیے کہ وہ اپنے شوہر سے طلاق کا مطالبہ کرے اگر طلاق دیدے تو بہتر وگرنہ وہ اپنے شوہر سے خلع کامطالبہ کرسکتی ہے اور خلع کے معتبر ہونے کےلیے میاں بیوی دونوں کی رضامندی شرعاً ضروری ہے،کوئی ایک فریق راضی ہو،دوسراراضی نہ ہوتو ایسا خلع شرعاًمعتبر نہیں ہوتا۔
2۔جہیز میں جتنا سامان لڑکی کو دیا گیا ہے ،وہ لڑکی کا ہے ،وہ اس میں جس طرح تصرف کرنا چاہے،تصرف کرسکتی ہے۔
لڑکے والوں نے لڑکی کو اور لڑکی والوں نے لڑکے کو جو تحفہ تحائف دیے ہیں،جو جس کو دیا گیا ہے وہ ان کی ملکیت ہے،لہذا میاں بیوی میں کشیدگی کے وقت کسی کو (لڑکے والوں کا لڑکی سے،لڑکی والوں کا لڑکے سے) ان تحائف کے واپسی کا مطالبہ کرنا درست نہیں ہے،اور نہ ان سے لینا درست ہے۔
3۔ نکاح کے بعد اخلاقاًو دیانۃً بیوی کے علاج معالجہ کےاخراجات کو برداشت کر نا یہ شوہر کے ذمہ داری تھی ،لیکن والد کا ان اخراجات کو برداشت کرنایہ ان کی طرف سے تبرع ہے ،اس لیے والد اب ان اخراجات کا اپنے داماد سے مطالبہ نہیں کر سکتا۔
4۔ سائل کی بیٹی نے اپنے شوہر کو جتنا سونا بطورِ عاریت کے دیا ہے،سائل کی بیٹی اس کا اپنے شوہرسے مطالبہ کرسکتی ہے،اور شوہر کےذمہ لازم ہے کہ یاتواتنا سونا(5.600 ملی گرام) بناکر دےدے یا اس کی موجودہ قیمت دےدے، اور ایک تولہ سونا میں سے جتنا باقی ہے وہ بھی دےد ے۔
5۔ بیوی کا اپنے شوہر سے مذکورہ مطالبہ شرعی ہے نہ کہ غیرشرعی ،اس لیے کہ شوہر پر بیوی کو ایک کمرہ اس طرح علیحدہ کرکے دینالازم ہوتا ہے کہ جس میں کسی اور کو اس کی اجازت کے بغیر آنے جانے کا اختیار نہ ہو،اسی طرح ایک متوسط درجہ کا کچن اور باتھ روم کی سہولت بھی عورت کے مطالبہ پر شوہر کے ذمہ دینا لازم ہوتاہے۔
قرآنِ کریم میں ہے :
"وَلا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً إِلَاّ أَنْ يَخافا أَلَاّ يُقِيما حُدُودَ اللَّهِ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَاّ يُقِيما حُدُودَ اللَّهِ فَلا جُناحَ عَلَيْهِما فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلا تَعْتَدُوها وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَأُولئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ."( البقرة : 229)
ترجمہ: " اور تمہارے لئے یہ بات حلال نہیں کہ ( چھوڑنے کے وقت ) کچھ بھی لو (گو) اس میں سے (سہی) جو تم نے ان کو ( مہر میں ) دیا تھا۔ مگر یہ کہ میاں بیوی دونوں کو احتمال ہو کہ اللہ تعالیٰ کے ضابطوں کو قائم نہ کر سکیں گے۔ سوا گر تم لوگوں کو یہ احتمال ہو کہ دونوں ضوابط خداوندی کو قائم نہ کر سکیں گے تو کوئی گناہ نہ ہو گا اس ( مال کے لینے دینے ) میں جس کو دے کر عورت اپنی جان چھڑالے یہ خدائی ضابطے ہیں سو تم ان سے با ہر مت نکلنا اور جو شخص خدائی ضابطوں سے بالکل باہر نکل جائے ( ایسے ہی لوگ اپنا نقصان کرنے والے ہیں ) ."(بیان القرآن)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"إذا تشاق الزوجان وخافا أن لا يقيما حدود الله فلا بأس بأن تفتدي نفسها منه بمال يخلعها به فإذا فعلا ذلك وقعت تطليقة بائنة ولزمها المال كذا في الهداية."
(الباب الثامن في الخلع ، الفصل الأول في شرائط الخلع ...، ج : 1 ، ص : 488 ، ط : دار الفکر)
فتاوی شامی میں ہے:
"وفي القهستاني عن شرح الطحاوي: السنة إذا وقع بين الزوجين اختلاف أن يجتمع أهلهما ليصلحوا بينهما، فإن لم يصطلحا جاز الطلاق والخلع."
(کتاب الطلاق ، باب الخلع ، ج : 3 ، ص : 441 ، ط : دار الفکر)
در مختار ميں هے :
"(جهز ابنته بجهاز وسلمها ذلك ليس له الاسترداد منها ولا لورثته بعد أن سلمها ذلك وفي صحته) بل تختص به (وبه يفتى) وكذا لو اشتراه لها في صغرها ولوالجية."
(کتاب النکاح ، باب المهر، ج : 3 ، ص :155 ، ط : دار الفکر)
فتاوی شامی میں ہے:
"كل أحد يعلم الجهاز للمرأة إذا طلقها تأخذه كله، وإذا ماتت يورث عنها."
(باب المہر ، ج : 3 ، ص : 158 ، ط : دار الفکر)
وفیہ أیضاً:
"قلت: ومن ذلك ما يبعثه إليها قبل الزفاف في الأعياد والمواسم من نحو ثياب وحلي، وكذا ما يعطيها من ذلك أو من دراهم أو دنانير صبيحة ليلة العرس ويسمى في العرف صبحة، فإن كل ذلك تعورف في زماننا كونه هدية لا من المهر، ولا سيما المسمى صبحة، فإن الزوجة تعوضه عنها ثيابها ونحوها صبيحة العرس أيضاً. ......"و المعتمد البناء على العرف كما علمت."
(کتاب النکاح، باب المہر،ج : 3 ، ص : 153 ، ط:دار الفکر)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"و إذا بعث الزوج إلى أهل زوجته أشياء عند زفافها، منها ديباج فلما زفت إليه أراد أن يسترد من المرأة الديباج ليس له ذلك إذا بعث إليها على جهة التمليك، كذا في الفصول العمادية."
(الباب السابع في المهر،الفصل السادس عشر فی جہاز البنت،ج:1 ،ص:327،ط: دار الفکر)
فتاوی شامی ميں هے:
"وفي الخانية: مرضت عند الزوج فانتقلت لدار أبيها، إن لم يكن نقلها بمحفة ونحوها فلها النفقة وإلا لا كما لا يلزمه مداواتها."
"قوله كما لا يلزمه مداواتها) أي إتيانه لها بدواء المرض ولا أجرة الطبيب ولا الفصد ولا الحجامة هندية عن السراج. والظاهر أن منها ما تستعمله النفساء مما يزيل الكلف ونحوه."
(کتاب النکاح ، باب النفقة ، ج : 3 ، ص : 575 ، ط : دارالفکر)
الاختيار لتعليل المختار میں ہے:
"وهي ( العارية) هبة المنافع، ولا تكون إلا فيما ينتفع به مع بقاء عينه ."
"اعلم أن الإعارة نوعان: حقيقة، ومجاز. فالحقيقة: إعارة الأعيان التي يمكن الانتفاع بها مع بقاء عينها كالثوب والعبد والدار والدابة. والمجاز: إعارة ما لا يمكن الانتفاع به إلا باستهلاكه كالدراهم والدنانير والمكيل والموزون والعددي المتقارب، فيكون إعارة صورة قرضا معنى ؛ لأنه رضي باستهلاكه ببدل، فكان تمليكا ببدل وهو القرض."
(كتاب العارية ، ج : 3 ،ص : 55 ، ط : دار الكتب العلمية)
فتاوی شامی میں ہے:
"(وكذا تجب لها السكنى في بيت خال عن أهله)...(بقدر حالهما) كطعام وكسوة وبيت منفرد من دار له غلق. زاد في الاختيار والعيني: ومرافق، ومراده لزوم كنيف ومطبخ، وينبغي الإفتاء به بحر (كفاها) لحصول المقصود هداية.
"(قوله: ومفاده لزوم كنيف ومطبخ) أي بيت الخلاء وموضع الطبخ بأن يكونا داخل البيت أو في الدار لا يشاركها فيهما أحد من أهل الدار. قلت: وينبغي أن يكون هذا في غير الفقراء الذين يسكنون في الربوع والأحواش بحيث يكون لكل واحد بيت يخصه وبعض المرافق مشتركة كالخلاء والتنور وبئر الماء."
(کتاب الطلاق ، باب النفقة ، مطلب في مسكن الزوجة ، ج :3 ، ص : 600 ، ط : دار الفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144601101897
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن