بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

چار رکعت والی نماز کے ساتھ مزید رکعات ملانے کی شرعی حیثیت


سوال

ایک بندہ امام کے ساتھ نماز میں شریک ہوا ،اس حال میں کہ اس کی ایک رکعت فوت ہوگئی تھی،جب کہ نمازچار رکعت والی  تھی ،اور اس نے تین رکعت امام کے ساتھ ادا کرلیں اور سلام کے بعد اس نے اپنی ایک رکعت مسبوق کی حالت میں پڑھی، مگر اس کے ساتھ اس نے ایک رکعت اور بھی ملالی،اور ان دو رکعتوں کے درمیان قعدہ بھی نہیں کیا تھا،آخر میں قعدہ کیا۔

1۔سوال یہ ہے کہ  کیا اس صورت میں مذکورہ نماز ہوگئی؟یعنی کل اس کی پانچ رکعتیں ہوگئیں ۔

2۔اگر وہ ان دونوں رکعتوں کے درمیان قعدہ کرلیتا تو کل پانچ رکعتیں ہوتی تو نماز کا کیا حکم ہوتا؟

3۔اور تیسری بات یہ ہے کہ اس نے اپنی رکعت پڑھی اور قعدہ میں بیٹھا ، مگر سلام سے پہلے دو رکعت اور ملالی یعنی اس کی نماز ٹوٹل چھ رکعت ہوگئیں تو نماز کا کیا حکم ہے ؟

4۔اور چوتھی صورت یہ ہے کہ جس مقتدی جس کی ایک رکعت فوت ہوگئی،  چار رکعات والی نماز میں  سلام کے بعد ایک رکعت کے بجائے تین رکعات پڑھے اور صرف آخر میں قعدہ کرے تو نماز کیا حکم ہے ؟

جواب

1۔صورتِ مسئولہ میں جب مذکورہ شخص نے  چوتھی رکعت پر قعدہ نہیں کیا تو اس کی فرض نماز باطل ہوگئی،اور پانچویں رکعت  پر سلام پھرنے سے اس کی تمام رکعات فاسد ہوگئیں، ایسی صورت میں چار رکعات نماز دوبارہ پڑھے گا۔

2۔چوتھی رکعت پر قعدہ کرنے سے نماز ادا ہوگئی ہے، اور آخری رکعت لغو شمار ہوگی۔

3۔جب نمازی نے چوتھی رکعت پر قعدہ اخیرہ کر لیا اور اس کے بعد مزید دو رکعات بھی  پڑھ لیں تو اس صورت میں چار رکعت فرض کے طور پرادا ہوگئیں، اور باقی دو رکعات نفل شمار  ہوں گی۔

4۔آخری صورت جس میں ایک رکعت کے بجائے تین رکعات پڑھیں اور صرف آخر میں قعدہ کیا یہ نماز فاسد ہوجائے گی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(ولو سها عن القعود الأخير) كله أو بعضه (عاد) ويكفي كون كلا الجلستين قدر التشهد (ما لم يقيدها بسجدة) لأن ما دون الركعة محل الرفض وسجد للسهو لتأخير القعود (وإن قيدها) بسجدة عامدا أو ناسيا أو ساهيا أو مخطئا (تحول فرضه نفلا برفعه) الجبهة عند محمد،وبه يفتى لأن تمام الشيء بآخره،

(قوله ما لم يقيدها) أي الركعة التي قام إليها، واحترز به عما إذا سجد لها بلا ركوع فإنه يعود لعدم الاعتداد بهذا السجود كما في النهر، ومقتضاه أنه لا بد من أن يكون قد قرأ فيها. وفي الخلاصة خلافه، ولذا استشكله في البحر بأن الركعة في النفل بلا قراءة غير صحيحة، فكانت زيادة ما دون ركعة وهو غير مفسد. قال في النهر: إلا أن يفرق بأنه قد عهد إتمام الركعة بلا قراءة كما في المقتدي، بخلاف الخالية عن الركوع."

(كتاب الصلاة، ‌‌باب سجود السهو، ج:2، ص:85، ط:سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"رجل صلى الظهر خمساً وقعد في الرابعة قدر التشهد إن تذكر قبل أن يقيد الخامسة بالسجدة أنها الخامسة عاد إلى القعدة وسلم، كذا في المحيط. ويسجد للسهو، كذا في السراج الوهاج. وإن تذكر بعدما قيد الخامسة بالسجدة أنها الخامسة لا يعود إلى القعدة ولا يسلم، بل يضيف إليها ركعةً أخرى حتى يصير شفعاً ويتشهد ويسلم، هكذا في المحيط. ويسجد للسهو استحساناً، كذا في الهداية. وهو المختار، كذا في الكفاية. ثم يتشهد ويسلم، كذا في المحيط. والركعتان نافلة ولا تنوبان عن سنة الظهر على الصحيح، كذا في الجوهرة النيرة ... وإن لم يقعد على رأس الرابعة حتى قام إلى الخامسة إن تذكر قبل أن يقيد الخامسة بالسجدة عاد إلى القعدة، هكذا في المحيط. وفي الخلاصة: ويتشهد ويسلم ويسجد للسهو، كذا في التتارخانية. وإن قيد الخامسة بالسجدة فسد ظهره عندنا، كذا في المحيط,وإن قيد الخامسة بالسجدة فسد ظهره عندنا، كذا في المحيط.

وتحولت صلاته نفلا عند أبي حنيفة وأبي يوسف - رحمهما الله تعالى - ويضم إليها ركعة سادسة ولو لم يضم فلا شيء عليه...وفي الخلاصة ويتشهد ويسلم ويسجد للسهو، كذا في التتارخانية، وإن قيد الخامسة بالسجدة فسد ظهره عندنا، كذا في المحيط.

وتحولت صلاته نفلا عند أبي حنيفة وأبي يوسف - رحمهما الله تعالى - ويضم إليها ركعة سادسة ولو لم يضم فلا شيء عليه."

(كتاب الصلاة وفيه اثنان وعشرون بابا، فصل سهو الإمام يوجب عليه وعلى من خلفه السجود، ج:1، ص:129، ط: دارالفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي التتارخانية: لو صلى التطوع ثلاثا ‌ولم ‌يقعد على الركعتين فالأصح أنه يفسد؛ ولو ستا أو ثمانيا بقعدة واحدة اختلفوا فيه. والأصح أنه يفسد استحسانا وقياسا اهـ لكن صححوا في التراويح أنه لو صلاها كلها بقعدة واحدة وتسليمة أنها تجزئ عن ركعتين، فقد اختلف التصحيح."

(‌‌‌‌كتاب الصلاة، باب الوتر والنوافل، ج:2، ص:36، ط: سعيد)

فتاوی  محمودیہ  میں ہے:

”سوال:چار رکعت والے فرض میں چار رکعت کے بعد تشہد پڑھ کر امام غلطی سے کھڑا ہو گیا تو اب کیا چھ رکعت پوری کرکے سلام پھیرے یا کیا کرے؟اور اگر تشہد نہیں پڑھا تو کیا حکم ہے،اور ایسی حالت میں جو لوگ امام کے ساتھ دوسری یا تیسری رکعت میں شریک ہوئے ہیں ان کو کیا کرنا چاہیئے؟

جواب:پانچویں رکعت کا سجدہ کرنے سے پہلے اگر یاد آگیا تو بیٹھ جائے ورنہ چھ پوری کرے،اور ہر صورت میں سجدہ سہو لازم ہوگا،اگر قعدۃ اخیرہ نہیں کیا ،اور پانچویں رکعت کا سجدہ کر لیا تو فرض نماز درست نہیں ہوئی۔“

(فتاوی محمودیہ، ج:7، ص:430، ط:جامعہ فاروقیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144606101045

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں