بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

شادی کے موقع پر چڑھائے گئے زیورات کی ملکیت کا حکم


سوال

گزشتہ دنوں  میں نے آپ کے دار الافتاء سے اپنے اہلیہ کے مطالبۂ خلع سے متعلق کچھ سوالات کیے تھے جس کا   فتویٰ نمبر یہ ہے:144511102638 اس کا جوابی فتویٰ بھی  میں نے وصول کر لیا ہے، اس فتوے کے سوال کی پہلی شق میں یہ مذکور ہے :

شادی کے دن بہو(میری بیوی) کو ساس (یعنی میری والدہ ) نے تقریباً 25 تولہ سونے کے زیورات تحفہ کے طور پر  دیے تھے،یہ بات خلاف واقع ہے، سوال لکھوانے میں تسامح ہوا تھا، در اصل بات یہ ہے  کہ وہ شادی  کے موقع پرمیری والدہ کی طرف سےچڑھاوا تھا، تحفہ نہیں تھا، شادی کے بعد وہ زیورات  میرے پاس ہوتے تھے، میری بیوی تقریبات کے موقع پر مجھ سے لے کر استعمال کیا کرتی تھی، شادی کے تقریباً 18 سال بعد میری بیوی نے بضد ان زیورات کو میری والدہ سے لے کر اپنے پاس رکھ لیا، پھر وہ زیورات اپنے ساتھ اپنے میکے لے گئی، جب وہ میری والدہ سےزیورات لینے کے لیے  ضد کر رہی تھی تو میری والدہ نے مجھے کہا تھا کہ استعمال تو اُسے(بیوی کو) ہی کرناہے تم رکھ کر کیا کروگے اس کو دے دو تو میں نے         وہ زیورات اسے دے دیے تھے۔

واضح رہے کہ میری والدہ نے ان زیورات کو چڑھاتے ہوئے تحفہ /ہدیہ کی کوئی صراحت نہیں کی تھی، البتہ ہمارے خاندان میں یہ رواج ہے کہ اس موقع پر پہنائے جانے والے زیور  لڑکے کی ملکیت سمجھے جاتے ہیں، لڑکے کو جب کبھی ضرورت ہوتی ہے کاروبار وغیرہ کے لیے تو اسے اپنے استعمال میں لاتا ہے۔
دریافت طلب مسئلہ یہ ہے کہ ایسی صورتِ حال میں اگر بیوی مجھ سے خلع لے لیتی ہے تو اس چڑھاوے کا کیا حکم ہے؟قرآن و سنت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ  لڑکی کو  نکاح کے موقع پر مہر کے علاوہ جو  زیورات سسرال والوں کی طرف سے   ملتے ہیں، ان میں تفصیل یہ ہے کہ اگر  زیورات دیتے وقت  سسرال والے بطورِ عاریت (یعنی صرف استعمال کے لیے) دینے کی صراحت کردیں  تو یہ زیورات لڑکے والوں کی ملکیت ہوں گے، اور اگرسسرال والے ہبہ / گفٹ کے طور پر   مالک بناکر دینے کی صراحت کردیں تو ایسی صورت میں زیورات  کی مالک لڑکی ہوگی، اور اگر  سسرال والے زیورات دیتے وقت کسی قسم کی کوئی صراحت نہ  کریں تو لڑکے کے خاندان کے عرف کا اعتبار ہوتا ہے، اگر ان کا عرف و رواج بطورِ ملکیت دینے کا ہے تو اس صورت میں زیورات کی مالک لڑکی ہوگی، اور اگر  بطورِ عاریت دینے کا رواج ہے تو پھر سسرال والے ہی مالک ہوں گے۔

 صورتِ  مسئولہ میں سائل کی والدہ نے شادی کے موقع پراپنے بہو( سائل کی بیوی )کو مذکورہ زیورات پہناتے ہوئے بطورِ تحفہ یا عاریت دینے کی کوئی صراحت نہیں کی تھی، جب کہ سائل کے خاندان کا عرف اور رواج  یہ ہے کہ نکاح کے موقع پر مہر کے علاوہ جو زیورات چڑھاتے ہیں  وہ بطورِ عاریت(محض استعمال کے لیے ) دی جاتی ہے تو ایسی صورت میں مذکورہ زیورات کے مالک سائل کے اہلِ خانہ ہیں سائل کی بیوی ان زیورات کی مالک نہیں ہے، اگر سائل کی بیوی سائل سے طلاق یا خلع کے ذریعے علیحدگی اختیار کرے گی تو سائل کی بیوی پر ان زیورات کو لوٹانا لازم ہوگا۔   

فتاوی شامی میں ہے:

"قلت: ومن ذلك ما يبعثه إليها قبل الزفاف في الأعياد والمواسم من نحو ثياب وحلي، وكذا ما يعطيها من ذلك أو من دراهم أو دنانير صبيحة ليلة العرس ويسمى في العرف صبحة، فإن كل ذلك تعورف في زماننا كونه هدية لا من المهر، ولا سيما المسمى صبحة، فإن الزوجة تعوضه عنها ثيابها ونحوها صبيحة العرس أيضاً."

(کتاب النکاح، باب المهر، ج:3، ص:153، ط: سعید)

فتاوی ہندیہ   میں ہے:

"وإذا بعث الزوج إلى أهل زوجته أشياء عند زفافها، منها ديباج فلما زفت إليه أراد أن يسترد من المرأة الديباج ليس له ذلك إذا بعث إليها على جهة التمليك، كذا في الفصول العمادية."

(الفصل السادس عشر فی جهاز البنت ، ج:1،  ص:327،  ط: رشیدیه)

فتاوی شامی میں ہے:

"و المعتمد البناء على العرف كما علمت."

(کتاب النکاح، باب المهر، ج:3، ص:157، ط:سعید)  

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144601101606

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں