نماز پڑھتے ہوئے اگر سامنے چارپائی پڑی ہو، تو کیا وہ سترہ کے قائم مقام ہوگی؟ خصوصا جب چارپائی کے درمیان میں مصلی ہو؟
واضح رہے کہ ’’سترہ‘‘ کے لغوی معنی ہیں: وہ چیز جس کے ذریعہ انسان خود کو چھپا سکے، شریعت کی اصطلاح میں نماز کے باب میں ’’سترہ‘‘ سے مراد وہ لاٹھی یا چھڑی وغیرہ ہے جو کم از کم ایک گز شرعی کے برابراونچی اور کم از کم ایک انگلی کے برابر کوئی موٹی چیز ہو ۔
صورتِ مسئولہ میں چارپائی کا درمیانی حصہ زمین سے متصل نہیں ہے،بلکہ سترہ کی لمبائی سے بھی اونچی ہوتی ہےلہذا اگر نمازی کے چہرے کےسامنے چارپائی کا پایہ نہ ہو،بلکہ درمیانی حصہ ہو تو وہ سترہ شمار نہیں ہوگا، کیونکہ اس صورت میں نمازی کے سامنے ایسی آڑ نہیں ہوگی جس پر شرعی سترہ کی تعریف صادق آسکے۔
شرح وقایہ میں ہے:
"ويغرز أمامه في الصحراء سترة بقدر ذراع، وغلظ أصبع على أحد حاجبيه، ولا توضع، ولا يخط."
(کتاب الصلاۃ،باب مایفسد الصلاہ وما یکرہ،ج:2،ص:143،ط: دار الوراق- عمان، الأردن)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"وينبغي لمن يصلي في الصحراء أن يتخذ أمامه سترة طولها ذراع وغلظها غلظ الأصبع ويقرب من السترة ويجعلها على حاجبه الأيمن أو الأيسر والأيمن أفضل. هكذا في التبيين وإن تعذر غرز العود لا يلقي."
(کتاب الصلاۃ، الباب السابع فيما يفسد الصلاة وما يكره فيها،الفصل الأول فيما يفسدها،1/ 104، ط: دار الفکر بیروت)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144511102456
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن