مجھے مندرجہ ذیل مسائل کا شرعی حکم معلوم کرنا ، لہذا ان میں شرعی رہنمائی فرمائیں :
1۔ ہمارے علاقےمیں چرس کی فصل کے بارے میں مختلف تأویلات کی جاتی ہیں ، لہذا یہ بتائیں کہ چرس کا پینا اور اس کا کاروبار کرنے کا شرعی حکم کیا ہے ؟
2۔ جس زمین میں چرس کاشت کی جائے ، اس زمین کا کیا حکم ہے ؟ کیا اس زمین سے دوسری فصلیں (مثلا: گندم وغیرہ ) حاصل کرنا جائز ہے یعنی اس زمین سے پھر کو ئی اور فصل بھی حاصل نہیں کی جاسکتی ؟
3۔ چرس کے پیسوں میں زکوٰۃ ہے یا نہیں ؟
4۔ جو شخص چرس کے حلال ہونے میں تأویل کرے ،اس کا کیا حکم ہے ؟
1۔ چرس چوں کہ ایک نشہ اور چیز ہے ، جس کے پینے سے عقل کام کرنا چھوڑ دیتی ہے او رجسم میں فتور آتا ہے ،لہذا چرس پینا ناجائز اور حرام ہوگا ۔
چرس کا استعمال چوں کہ نشے کے علاوہ دوسری چیزوں ( مثلا: ادویات وغیرہ ) میں بھی ہوتا ہے ، اس لیے علماء کرام نے اس کی تجارت کرنےکی گنجائش لکھی ہے ، لیکن چوں کہ آج کل معاشرے میں اس کا عمومی استعمال منشیات کے طور پر ہوتاہے اور دنیا کے بیشتر ممالک میں یہ بطورِ منشیات متعارف ہے، اور لاکھوں لوگ اس کے عادی بن کر اپنی صحت اور زندگی کو داؤ پر لگاچکے ہیں اور حکومت کی طرف سے بھی اس کی تجارت پر پابندی ہے؛ لہذا اس کی تجارت سے اجتناب کرنا چاہیے ، البتہ ایسے شخص کے ہاتھوں فروخت کرنا بالکل جائز نہیں ہے،جس کے بارے میں بیچنے والے کو یہ معلوم ہو یا غالب گمان ہو کہ وہ اسے نشہ کے طور پر استعمال کرے گا ۔
2۔ چرس چوں کے بھنگ کے پودے کے ریزین (resin) یا گوند سے بنتی ہے اور خو د بعینہ چرس کی کاشت نہیں ہوتی ،لہذا اگر کسی زمین پر بھنگ کاشت کی جاتی ہو تو اس زمین کو دوسری فصلوں کےلیے استعمال کرنا جائز ہے ۔
3۔ چرس کی تجارت کی مالیت اگر نصاب تک پہنچتی ہے تو اس میں زکوٰ ۃ واجب ہے ۔
4۔چرس سے نشہ کرنا حلا ل نہیں اور اس میں تأویل کی بھی گنجائش نہیں ، پس جو شخص چرس کے نشہ کرنے کی حلت کا قائل ہو ، تو اس کی بات مردود ہوگی البتہ نفس چرس کا خارجی استعمال بطریق علاج جائز ہے ۔
کفایت المفتی میں ہے:
[افیون ، چرس ، کوکین کی تجارت کے متعلق سوا ل کے جواب میں فرماتے ہیں : ]’’افیون ، چرس، بھنگ ، کو کین یہ تمام چیز میں پاک ہیں اور ان کا دوا میں خارجی استعمال جائز ہے ، نشہ کی غرض سے ان کو استعمال کرنا نا جائز ہے ۔ مگر ان سب کی تجارت بوجہ فی الجملہ مباح الاستعمال ہونے کے مباح ہے تجارت تو شراب اور خنزیر کی حرام ہے کہ ان کا استعمال خارجی بھی نا جائز ہے۔ محمد کفایت اللہ کان اللہ لہ دہلی۔‘‘
(کتاب الحظر والاباحۃ ، ج : ۹ ، ص: ۱۲۹ ، ط: دارالاشاعت )
فتاوی مفتی محمو د میں ہے:
[بھنگ ،چرس ، افیون وغیر کے متعلق سوال کے جواب میں فرماتے ہیں ] ’’واضح رہے کہ جملہ منشی اشیاء میں یہ تفصیل ہے کہ اگر وہ منشی چیز پینے والی ہے خواہ شراب ہو یا کچھ اور ، اور اس کے زیادہ پینے سے نشہ ہو جاتا ہے تو اس کا ایک قطرہ بھی حرام ہے۔ اگر چہ اس قلیل مقدار سے نہ ہوتا ہو اسی طرح اس کا دواء میں استعمال کرنا خواہ پینے میں ہو یا لیپ کرنے میں بہر حال ممنوع ہے اور خواہ وہ نشہ دار چیز اپنی اصلی حالت پر رہے خواہ کسی تصرف سے دوسری ہیئت میں ہو جائے ہر حال میں ممنوع ہے۔ اور اگر نشہ دار چیز پتلی نہ ہو بلکہ اصل سے منجمد ہو جیسے تمباکو ، افیون وغیرہ تو اس میں اتنی مقدار جو بالفعل نشہ پیدا کرے یا اس سے ضرر شدید ہو تو وہ حرام ہے۔ نیز ایسے ہی مقدار منشی سے کم بلا ضرورت استعمال کرنا بھی درست نہیں۔ البتہ جو مقدار نشہ نہ لائے نہ اس سے کوئی ضرر پہنچے اس کا دواء استعمال کرنا جائز ہے اور ضماد وغیرہ میں استعمال کیا جائے تو کچھ بھی مضائقہ نہیں ۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم ‘‘
(٘شراب کا بیان ، ج: ۹، ص: ۵۵ ، ط: جمعیت پبلشرز )
جواہر الفقہ میں ہے:
’’لیکن یہاں ایک اہم بات قابل غور یہ ہے کہ تسبب ایک ایسا وسیع لفظ ہے جس میں سارے مباحات آجاتے ہیں، اگر تسبب کے مفہوم کو مطلقا سببیت کے لئے عام رکھا جائے ، تو شاید دنیا کا کوئی مباح کام بھی مباح اور جائز نہیں رہے گا ...‘‘[آگے فرمایا:]’’دوسری قسم سبب قریب کی وہ ہے کہ ہے تو سبب قریب مگر معصیت کے لئے محرک نہیں بلکہ صدور معصیت کسی دوسرے فاعل مختار کے اپنے فعل سے ہوتا ہے، جیسے بیع عمیر عنب ممن يتخذه خمراً يا اجارة دار ممن يتعبد فيها الاصنام و غیره که یہ بیع واجارہ اگر چہ ایک حیثیت سے سبب قریب ہے معصیت کا ، مگر جالب اور محرک للمعصیۃ نہیں، شیره انگور خریدنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس کو شراب ہی بنائے اور گھر کو کسی مشرک کے لئے کرایہ پر دینے سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ اس میں بت پرستی بھی کرے، بلکہ وہ اپنی خیانت یا جہالت سے اس گناہ میں مبتلا ہوتا ہے، شیرہ بیچنے والا یا مکان کرایہ پر دینے والا معصیت کا باعث اور محرک نہیں ہے۔
ایسے سبب قریب کا حکم یہ ہے کہ اگر بیچنے یا اجارہ پر دینے والے کا مقصد اس معصیت ہی کا ہو، تب تو یہ خود ارتکاب معصیت اور اعانت معصیت میں داخل ہو کر قطعاً حرام ہے۔ اور اگر اس کا قصد و نیت شامل نہ ہو، تو پھر اس کی دو صورتیں ہیں، ایک یہ کہ اس کو علم بھی نہ ہو کہ یہ شخص شیره انگور خرید کر سرکہ بنائے گا یا شراب، یا گھر کرایہ پر لے کر اس میں صرف سکونت کرے گا، یا کوئی نا جائز کام فسق و فجور کا کرے گا، اس صورت میں یہ بیع و اجارہ بلا کراہت جائز ہے...‘‘
(ناجائز کاموں میں تعاون ، ج: ۷ ، ص:۵۱۰ ۔ ۵۱۲ ، ط: مکتبہ دارالعلوم کراچی )
فتاوی دارالعلوم دیوبند میں ہے:
[افیون میں عشر کے متعلق سوال کے جواب میں فرماتے ہیں ] ’’الجواب : أقول وبالله التوفيق : اس صورت میں صحیح یہی معلوم ہوتا ہے کہ افیون مال متقوم ہے، اور اس میں عشر واجب ہے۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم (۱۷۸/۶)۔‘‘
(کتاب الزکاۃ ، پیدوار کی زکاۃ کا حکم ، ج:۶ ، ص:۲۱۵ ، ط: مکتبہ دارالعلوم دیوبند )
فتاو ی محمودیہ میں ہے:
[افیون کی تجارت کے متعلق سوال کے جواب میں فرماتے ہیں ] ’’افیون کی تجارت مکروہ ہے ۔ افیون کی آمدنی سے جو زمین خرید کر اس میں کاشت کرتے ہیں، اس کاشت کی آمدنی کو حرام نہیں کہا جائے گا، ایسی آمدنی سے چندہ لینا بھی درست ہے اور ان کے یہاں کھاناپینا بھی درست ہے ۔ فقط واللہ سبحانہ تعالی اعلم ۔ حرره العبد محمود غفر لہ۔
(کتاب البیوع ، باب البیع الباطل ... ، ج:۱۶ ، ص: ۱۲۳۔ ۱۲۴ ، ط: ادارۃ الفاروق )
الدر المختار مع رد المحتار میں ہے:
"(وحرمها محمد) أي الأشربة المتخذة من العسل والتين ونحوهما قاله المصنف (مطلقا) قليلها وكثيرها (وبه يفتى) ذكره الزيلعي وغيره؛ واختاره شارح الوهبانية، وذكر أنه مروي عن الكل ونظمه فقال:
وفي عصرنا فاختير حد وأوقعوا ... طلاقا لمن من مسكر الحب يسكر وعن كلهم يروى وأفتى محمد ... بتحريم ما قد قل وهو المحرر
قلت: وفي طلاق البزازية: وقال محمد ما أسكر كثيره فقليله حرام، وهو نجس أيضا،ولو سكر منها المختار في زماننا أنه يحد. زاد في الملتقى: وقوع طلاق من سكر منها تابع للحرمة، والكل حرام عند محمد وبه يفتى، والخلاف إنما هو عند قصد التقوي. أما عند قصد التلهي فحرام إجماعا اهـ، وتمامه فيما علقته عليه. "[وفي رد المحتار : ]"(قوله وبه يفتى)أي بقول محمد، وهو قول الأئمة الثلاثة لقوله - عليه الصلاة والسلام - «كل مسكر خمر وكل مسكر حرام» رواه مسلم، وقوله - عليه الصلاة والسلام - " «ما أسكر كثيره فقليله حرام» رواه أحمد وابن ماجه والدارقطني وصححه (قوله غيره) كصاحب الملتقى والمواهب والكفاية والنهاية والمعراج وشرح المجمع وشرح درر البحار والقهستاني والعيني، حيث قالوا الفتوى في زماننا بقول محمد لغلبة الفساد. وعلل بعضهم بقوله لأن الفساق يجتمعون على هذه الأشربة ويقصدون اللهو والسكر بشربها.
أقول: والظاهر أن مرادهم التحريم مطلقا وسد الباب بالكلية وإ لا فالحرمة عند قصد اللهو ليست محل الخلاف بل متفق عليها كما مر ويأتي، يعني لما كان الغالب في هذه الأزمنة قصد اللهو لا التقوي على الطاعة منعوا من ذلك أصلا تأمل ."
(كتاب الأشربة ، ج:6، ص: 454 - 456 ، ط: سعيد)
وفيه أيضا:
"(ويحرم أكل البنج والحشيشة)هي ورق القتب (والأفيون) لأنه مفسد للعقل ويصد عن ذكر الله وعن الصلاة (لكن دون حرمة الخمر، فإن أكل شيئا من ذلك لا حد عليه وإن سكر) منه (بل يعزر بما دون الحد) كذا في الجوهرة، وكذا تحرم جوزة الطيب لكن دون حرمة الحشيشة قاله المصنف. ونقل عن الجامع وغيره أن من قال بحل البنج والحشيشة فهو زنديق مبتدع بل قال نجم الدين الزاهدي: إنه يكفر ويباح قتله."[ وفي رد المحتار: ]"والحاصل أن استعمال الكثير المسكر منه حرام مطلقا كما يدل عليه كلام الغاية. وأما القليل، فإن كان للهو حرام، وإن سكر منه يقع طلاقه لأن مبدأ استعماله كان محظورا، وإن كان للتداوي وحصل منه إسكار فلا، فاغتنم هذا التحرير المفرد."
(كتاب الأشربة، ج:6، ص:458، ط: سعيد)
ر د المحتار میں ہے:
"(قوله وقال محمد إلخ) أقول:الظاهر أن هذا خاص بالأشربة المائعة دون الجامد كالبنج والأفيون، فلا يحرم قليلها بل كثيرها المسكر، وبه صرح ابن حجر في التحفة وغيره، وهو مفهوم من كلام أئمتنا لأنهم عدوها من الأدوية المباحة وإن حرم السكر منها بالاتفاق كما نذكره، ولم نر أحدا قال بنجاستها ولا بنجاسة نحو الزعفران مع أن كثيره مسكر، ولم يحرموا أكل قليله أيضا، ويدل عليه أنه لا يحد بالسكر منها كما يأتي، بخلاف المائعة فإنه يحد، ويدل عليه أيضا قوله في غرر الأفكار: وهذه الأشربة عند محمد وموافقيه كخمر بلا تفاوت في الأحكام، وبهذا يفتى في زماننا اهـفخص الخلاف بالأشربة..."
(كتاب الأشربة، ج: 6، ص: 455، ط: سعيد)
الدر المختار میں ہے:
"(واللازم)مبتدأ (في مضروب كل) منهما (ومعموله ولو تبرا أو حليا مطلقا) مباح الاستعمال أو لا ولو للتجمل والنفقة؛ لأنهما خلقا أثمانا فيزكيهما كيف كانا (أو)في (عرض تجارة قيمته نصاب) الجملة صفة عرض وهو هنا ما ليس بنقد. وأما عدم صحة النية في نحو الأرض الخراجية فلقيام المانع كما قدمنا لا لأن الأرض ليست من العرض فتنبه(من ذهب أو ورق) أي فضة مضروبة، فأفاد أن التقويم إنما يكون بالمسكوك عملا بالعرف (مقوما بأحدهما) إن استويا، فلو أحدهما أروج تعين التقويم به؛ ولو بلغ بأحدهما نصابا دون الآخر تعين ما يبلغ به، ولو بلغ بأحدهما نصابا وخمسا وبالآخر أقل قومه بالأنفع للفقير سراج (ربع عشر) خبر قوله اللازم."
(كتاب الزكاة، باب زكوة المال، ج:2، ص:299، ط: سعيد)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144608100630
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن