بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

چچا کو زکات اور فدیہ دینا


سوال

میرے چچاجو دماغی مریض ہونے کی وجہ سے بے روزگار ہیں  ،جن کی کفالت ہماری ذمہ داری ہے ،کیا ان کے اوپر زکاۃ اور بیمار والد صاحب کے روزے کافدیہ خرچ کیاجا سکتا ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ اپنے اصول (والدین، دادا، نانا وغیرہ) وفروع (اولاد، ان کی نسل) کو  اور اسی طرح بیوی کو زکاۃ  دینا جائز نہیں ہے۔ اس کے علاوہ دیگر رشتہ دار چاچا، چچازاد بھائی، پھوپھی اور ان کی اولاد اگر مستحقِ زکاۃ ہو تو ان کو زکاۃ دینا جائز ہے، بلکہ یہ دوہرے ثواب کا باعث ہے؛ اس لیے کہ اس میں زکاۃ کی ادائیگی کے ساتھ صلہ رحمی بھی ہے۔لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر سائل کے چچا کی ملکیت میں  ساڑھے سات تولہ سونا، یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا ساڑھے  باون تولہ چاندی کے بقدر مالِ تجارت ،سونا، چاندی،نقدی یا ضرورت سے زائد اتنا سامان نہیں  ہے  یا  اس قدر مالیت کا سامان تو ہے لیکن ذمے  میں واجب قرضوں  کی مقدار منہا کرنے کے بعد  ساڑھے باون تولہ چاندی  کی قیمت سے کم بچتا ہو اور  نہ  ہی  وہ سید ، ہاشمی ہو تو سائل اپنے چچا کو زکات اور فدیہ دے سکتا ہے ، اسی طرح مالدار بھائی غریب بھائی کو بھی زکوۃ اور فطرہ دے سکتا ہے، البتہ  زکات  یا فدیے کی رقم  مشترکہ چیزوں میں استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"‌‌(منها الفقير) وهو من له أدنى شيء وهو ما دون النصاب أو قدر نصاب غير نام وهو مستغرق في الحاجة فلا يخرجه عن الفقير ملك نصب كثيرة غير نامية إذا كانت مستغرقة بالحاجة كذا في فتح القدير."

(كتاب الزكاة،الباب السابع في المصارف،ج1،ص187،ط:المطبعة الكبرى الأميرية)

وفيه أيضا:

"والأفضل في الزكاة والفطر والنذر الصرف أولا إلى الإخوة والأخوات ثم إلى أولادهم ثم إلى ‌الأعمام والعمات."

(كتاب الزكاة،الباب السابع في المصارف،ج1،ص190،ط:المطبعة الكبرى الأميرية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144510102231

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں