کیا چہرے کا پردہ کرنا صرف ان جگہوں میں فرض ہے، جہاں پر فتنے کا اندیشہ ہو اور جن علاقوں میں فتنے کا اندیشہ نہ ہو ،وہاں پر چہرے کا پردہ کرنا فرض نہیں ہے ۔ یہ بات درست ہے یا غلط ؟
واضح رہے کہ پردہ کے دو معنی ہے، ایک بمعنی سترجو کہ فرض ہے، جس کی تفصیل فقہ کی کتابوں میں موجود ہے۔پردہ کا دوسرا معنی ہے حجاب یعنی عورت اجنبی مرد کے سامنے اپنے بدن کا کوئی بھی حصہ ظاہر نہ کرے۔ اس کا حکم قرآن کریم کی آیت "ولا یبدین زینتھن إلا ما ظهر منها" (کہ اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں مگر جو اس میں کھلی ہوئی ہو) سے واضح ہوتا ہے۔اور پردہ بمعنیحجاب یہ واجب ہے۔ کیوں کہ ستر وحجاب کی آیات اور احادیث سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ عورت ذات میں اصل یہ ہے کہ وہ اپنے تمام اعضاء پردہ میں رکھے اور اجنبیوں کے سامنے اس کا اظہار نہ ہو، جیسا کہ امداد الفتاوی میں ہے:
”خلاصۂ جواب یہ ہوا کہ ستر فرض ہے اور حجاب بنظرِ مصلحت واجب ہے ۔۔۔۔۔۔۔(حجاب و ستر سے متعلق ) احادیث و آیات وروایات فقہیہ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ عورت کے لئے حکم اصلی احتجاب استتاربجیمع اعضائها وار کانہا ثابت ہے“۔
(کتاب الحظر والاباحۃ، عورتوں کے پردےاورنظر ولمس وغیرہ کے احکام، ج: 4، ص: 181،179، ط: مکتبہ دار العلوم کراچی)
اور قرآن کریم کی آیت کریمہ۔" ولا یبدین زینتھن إلا ما ظهر منها" کی تفسیر یہ ہے کہ مواضعِ زینت میں سے جن کے ستر اور پردہ میں حرج لاحق ہو، جیسے چہرہ اور ہتیلی تو ان کا ستر فرض نہیں ہے، اس لیے بوقت ضرورت اس کے اظہار کی گنجائش ہے، جیسے حاکم کے فیصلہ کے وقت یا شرعی شہادت کے وقت، وغیرہ ، البتہ اس کا ستر سنت بمعنی واجب استحسانی برقرار ہے۔
شاہ واللہ محدث دھلویؒ لکھتے ہیں:
”کہ حاصل این آیت آنست که مواضع زینت دو قسم است، آنچه در ستر آن حرج است و آن وجه وکفین بود ، و آنچه درستر آن حرج نیست مانند سر و گردن و عضد و ذراع و ساق پس ستر وجه و کفین از اجنبیان فرض نیست بلکه سنت است. ستر غیر آن از اجنبیان فرض است نه از محارم“۔
(از امدادا لفتاوی، ج: 4، ص: 179، ط: مکتبہ دار العلوم کراچی)
امداد الفتاوی میں ہے:
”ان احادیث و آیات وروایات فقہیہ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ عورت کے لیے حکم اصلی احتجاباستتار بجمیع اعضائها وارکانہا ثابت ہے، البتہ جہاں ضرورت شدیدہ ہو یا بسبب كبر سن کے مطلق احتمال فتنہ و اشتہات کا باقی نہیں، وہاں وجہ وکفین کا کشف جائز ہے، اور یہی مطلب ہے اُن کے ستر نہ ہونے کا، اس سے واضح ہو گیا کہ مشتہات عورت کا اجنبی کے رو برو آنا از روئے قرآن و حدیث و فقہ نا جائز ہے، اور ضرورت میں برقعہ اوڑھ کر نکلے، البتہ جہاں ضیق ہو یا معمر زیادہ ہو وہاں جائز ہے“۔
(کتاب الحظر والاباحۃ، عورتوں کے پردےاورنظر ولمس وغیرہ کے احکام، ج: 4، ص: 181، ط: مکتبہ دار العلوم کراچی)
مذکورہ تفصیل سے واضح ہوتا ہے کہ چہرے کے حجاب میں ضرورت اور فتنہ کو پیش نظر رکھا گیا ہے، کہ اصل حکم تو پردہ کا ہی ہے، لیکن جہاں ضرورت ہو یا کبر سنی کی وجہ سے فتنہ کا خوف نہ رہے، تو اس میں کوئی حرج نہیں، لیکن اس زمانہ میں ایسا احتمال بالکل شاذ ونادر ہے، اس لیے فی زمانہ مطلقاً اجنبی عورت کے چہرے کی طرف دیکھنا ممنوع ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"فإن خاف الشهوة) أو شك (امتنع نظره إلى وجهها) فحل النظر مقيد بعدم الشهوة وإلا فحرام وهذا في زمانهم، وأما في زماننا فمنع من الشابة قهستاني وغيره."
(كتاب الحظر والإباحة، ج: 6، ص: 377، ط: سعيد)
مفتی رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
”پس ایسے وقت میں اگر بضرورت اجازت دی بھی گئی تو اُس پر ایسے ز مانہ کو جو فتنہ و فساد سے پر ہے اور اہل تقویٰ کوئی شاذ و نادر ہے ، ہر گز قیاس نہیں کر سکتے، اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اندیشہ کے وقت ممانعت خروج کا اشارہ کر بھی دیا تھا، جیسا کہ روایات سابقہ سے معلوم ہوا، بعد تصریح کلیات کے پھر جزئی جزئی کی تصریح ضروری نہیں ہوتی ۔ چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں" لو ادرک رسول اللہ صلی الله عليه وسلم ما احدثت النساء لمنعهن كما منعه نساء بنی اسرائیل".
لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُس وقت اجازت دینے کو اِس وقت کی اجازت کے واسطے حجت بنانا ہر گز کسی طبع سلیم کو مقبول نہ ہو گا اور وہ جو فقہاء نے ستر کے بارے میں لکھا ہے کہ چہرہ عورت کا عورت نہیں ہے تو اس کے یہ معنی ہیں کہ ادائے صلوۃ میں اس کا ڈھکنا فرض نہیں ہے یا یہ کہ جہاں کوئی فتنہ کا اندیشہ نہ ہو۔ چنانچہ بیضاوی نے "ولا یبدین زینتھن إلا ما ظهر منها" کی تفسیر میں لکھا ہے :
"والمستثنى هو الوجه والكفان لانها ليست بعورة و الأظهر ان هذا في الصلوة لافي النظر فان كل بدن الحرة عورة لا يحل لغير الزوج والمحرم النظرُ إلى شئ منها إلالضرورة كالمعالجة وتحمل الشهادة."
اور کلام فقہاء کے یہ معنی ہر گز نہیں ہیں کہ چہرہ کھول کر کوچہ و بازار میں پھرتی ر ہیں اور مردوں کو اپنے اوپر لبھایا کریں ۔ چنانچہ آیت يدنين عليهن من جلابيبهن میں صراحت موجود ہے اور ایسے موقع میں چہرہ کھولنا تصریحات فقہا ء سے ہی حرام ہے۔ چنانچہ مسائل خطر وا باحت وغیرہ میں اس کی تصریحات موجود ہیں “۔
(تالفیاتِ رشیدیہ، مسئلہ اثباتِ پردہ، ص: 697، ط: ادارہ اسلامیات لاھور)
احكام القرآن ميں ہے:
"قوله تعالى:يا أيها النبي قل لأزواجك وبناتك ونساء المؤمنين يدنين عليهن من جلابيبهن، وعن عبد الله قال الجلباب الرداء... وقال ابن عباس ومجاهد تغطي الحرة إذا خرجت جبينها ورأسها... قال أبو بكر في هذه الآية دلالة على أن المرأة الشابة مأمورة بستر وجها عن الأجنبيين وإظهار الستر والعفاف عند الخروج لئلا يطمع أهل الريب فيهن."
(سورة الأحزاب، ج: 5، ص: 245، ط: دار إحياء التراث العربي)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144509102134
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن