بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

چوسر لڈو سے مختلف کھیل ہے


سوال

کیا چوسر لوڈو کو کہتے ہیں؟

جواب

چوسر  ایک طرح کا کھیل ہے جو دوہری بِساط پر کھیلاجاتاہے، بساط عام طور پر کپڑے کی ہوتی ہے، اس میں کَنکریاں یا پلاسٹک کی گوٹیں ہوتی ہیں اور ایک ڈِبیا میں  دو نَگ ہوتے ہیں جن کو ہلا کر جیسا نَگ نکل آتا ہے اس کے مطابق کنکریاں یا گوٹیں آگے بڑھائی جاتی ہیں،اس کو نرد شیر بھی کہتے ہیں، احادیثِ مبارکہ میں اس کے کھیلنے والوں کے متعلق سخت وعید آئی ہے، اسی لیے اس کا کھیلنا مکروہِ تحریمی ہے اور اگر اس میں جوے کاعنصر شامل ہو، تو پھر اس کا کھیلنا حرام ہوگا۔

لو ڈو اس سے مختلف کھیل ہے، لُوڈو :دو سے چار کھلاڑیوں کے لیے ایک   کھیل ہے،لوڈو بورڈ کے خاص حصّے عام طور پر روشن پیلے، سبز، سرخ اور نیلے رنگ کے ہوتے ہیں، ہر کھلاڑی کو ایک رنگ تفویض کیا جاتا ہے اور اس کے رنگ میں چار ٹوکن ہوتے ہیں، جس میں کھلاڑی ایک ڈائی کے رول کے مطابق شروع سے آخر تک اپنے چار دانوں کی دوڑ لگاتے ہیں، اس کے متعلق یہ حکم ہے کہ اگرلوڈو کھیلنے میں شرط نہ لگائی جائے یا کسی اور گناہ کا ارتکاب نہ بھی  ہو،  تو  بھی اس میں عموماً انہماک اس حد تک  ہوتا ہے  کہ نماز و دیگر اہم  امور  میں غفلت ہوجاتی ہے، دل ودماغ  خدا کی یاد سے غافل رہتے ہیں، لایعنی امور میں(جن کاموں میں دین ودنیا کا کوئی فائدہ نہ ہو)  ایسا انہماک شرعاً ناپسندیدہ ہے۔

قرآن مجید میں ہے:

"{وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا أُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُهِينٌ } ."[لقمان: 6]

ترجمہ:"اور بعض آدمی (ایسا) بھی ہے جو ان باتوں کا خریدار بنتا ہے،جو الله سے غافل کرنے والی ہیں تاکہ الله کی راہ سے بےسمجھے بوجھے گمراہ کر لے اور اس کی ہنسی اڑا دے ایسے لوگوں کے لیے ذلت کا عذاب ہے۔"(بیان القرآن)

تفسیر       روح المعانی میں ہے:

"ولهو الحديث على ما روي عن الحسن: كل ما شغلك عن عبادة الله تعالى وذكره من السمر والأضاحيك والخرافات والغناء ونحوها."

(سورة لقمان، الأية:6، ج:11، ص:66، ط: دار الکتب العلمیة)

سنن ابی داؤد میں ہے:

"حدثنا مسددة حدثنا يحيى، عن سفيان، عن علقمة بن مرثد، عن سليمان بن بريدةعن أبيه، عن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: "‌من ‌لعب ‌بالنرد ‌شير فكأنما غمس يده في لحم خنزير ودمه".

’’ترجمہ:حضرت سلیمان بن بریدہ نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:جس شخص نے نرد شیر کھیلا، تو گویا ایسا ہے کہ جیسے اس نے اپنا ہاتھ خنزیر کے گوشت اور اس کے خون میں رنگ دیا۔‘‘

(كتاب الأدب،باب في النهي عن اللعب بالنرد، 296/7، ط: دار الرسالة العالمية)

تکملۃ فتح الملہم میں ہے:

"فالضابط في هذا ... أن اللهو المجرد الذي لا طائل تحته، وليس له غرض صحيح  مفيد في المعاش ولا المعاد حرام أو مكروه تحريماً، ... وما كان فيه غرض  ومصلحة دينية أو دنيوية فإن ورد النهي  عنه من الكتاب  أو السنة ... كان حراماً أو مكروهاً تحريماً، ... وأما مالم يرد فيه النهي عن الشارع وفيه فائدة ومصلحة للناس فهو بالنظر الفقهي على نوعين: الأول: ما شهدت التجربة بأن ضرره أعظم من نفعه، ومفاسده أغلب على منافعه، وأنه من اشتغل  به ألهاه عن ذكر الله  وحده  وعن الصلاة والمساجد، التحق ذلك بالمنهي عنه؛ لاشتراك العلة، فكان حراماً أو مكروهاً. والثاني: ماليس كذلك، فهو أيضاً إن اشتغل به بنية التهلي والتلاعب فهو مكروه، وإن اشتغل به لتحصيل تلك المنفعة وبنية استجلاب المصلحة فهو مباح، بل قد ير تقي إلى درجة الاستحباب أو أعظم منه ... وعلى هذا الأصل فالألعاب التي يقصد بها رياضة الأبدان أو الأذهان جائزة في نفسها مالم يشتمل على معصية أخرى، وما لم يؤد الانهماك فيها إلى الإخلال بواجب الإنسان في دينه و دنياه."

 (تکملة فتح الملهم، قبیل کتاب الرؤیا، ج:4، ص:435، ط:  دارالعلوم کراچی)

سنن ابی داؤد میں ہے:

"حدثنا مسددة حدثنا يحيى، عن سفيان، عن علقمة بن مرثد، عن سليمان بن بريدةعن أبيه، عن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: "‌من ‌لعب ‌بالنرد ‌شير فكأنما غمس يده في لحم خنزير ودمه".

(كتاب الأدب،باب في النهي عن اللعب بالنرد، 296/7، ط: دار الرسالة العالمية)

فتاوی ہندیہ  میں ہے:

"‌ويكره ‌اللعب بالشطرنج والنرد".

(كتاب الكراهية، 352/5، ط: رشيدية)

تاج العروس میں ہے:

(‌النرد) ، أهمله الجوهري. وقال الصاغاني: هو (م) ، معروف، شيء يلعب به، قال ابن دريد: فارسي، (معرب) ، واختلف في واضعه، كما اختلف في واضع الشطرنج، فقيل: (وضعه أردشير بن بابك) من ملوك الفرس، (ولهاذا يقال له ‌النرد شير) إضافة له إلى واضعه، وقد ورد هاكذا في الحديث (من لعب بالنرد شير فكأنما غمس يده في لحم الخنزير ودمه) ، وقال ابن الأثير: ‌النرد اسم أعجمي معرب، وشير بمعنى حلو: قلت: وهاكذا نقله ابن منظور وشيخنا، وقوله: شير بمعنى حلو وهم، بل شير هو الأسد إذا كانت الكسرة ممالة، وإذا كانت خالصة فمعناه اللبن، وأما الذي معناه الحلو فإنما هو شرين، كما هو معروف عندهم، وقد ذكر المؤرخون في سبب تسميته أرد شير وجوها، منها أن الأسد شمه وهو صغير وتركه ولم يأكله، وقيل: لشجاعته

(باب الدال المهملة، فصل النون مع الدال المهملة، 219/9، ط: مطبعة حكومة الكويت)

کفایت المفتی میں ہے:

"سوال : تاش، چوسر، شطرنج کی بازی کھیلنا جائز ہے یا نہیں ؟ ایک مولوی صاحب شطرنج کو جائز کہتے ہیں؟

 جواب :تاش  ،چوسر، شطرنج لہو و لعب کے طور پر کھیلنا مکروہ تحریمی ہے اور عام طور پر کھیلنے والوں کی غرض یہی ہوتی ہے نیز ان کھیلوں میں مشغول اکثری طور پر فرائض و واجبات کی تفویت کا سبب  بن جاتی ہے اور اس صورت میں اس کی کراہت حد حرمت تک پہنچ  جاتی ہے ۔ "

 

(کتاب الحظر و الاباحۃ، 204/9   ط:دار الاشاعت)

فتاویٰ مفتی محمودمیں ہے:

"تاش کھیلنایالوڈوکھیلنابہت براہے،اوراگراس پرہارجیت کی شرط ہوتوجواہے اوربالکل حرام ہے،گناہ کبیرہ سے بچناہرمسلمان پرفرض ہے،کامیاب مومن کی شان اللہ تعالیٰ  نے قرآن کریم میں یوں بیان کی ہے:’’کامیاب مومنین و ہ ہیں جولہوولعب سے اعراض کرتے ہیں،‘‘ حضرت شیخ الہندرحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ:’’خودتولہوولعب میں مصروف نہیں ہوئے بلکہ اگرکوئی اورشخص مصروف ہوتواس سے بھی اعراض کرتے ہیں۔‘‘

(فتاویٰ مفتی محمود،کتاب الحظرالاباحہ، ج:11، ص:295، جمعیۃ پبلیکیشنز)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144408101960

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں