زید کی رقم چوری ہوگئی ، اس نے سوچا کہ سارق (چور) حرام کھانے سے بچ جائے تو اس نے یوں کہا کہ : ”یا اللہ ! میں اس کو آپ کی رضا کے لیے معاف کرتا ہوں، اور اگر وہ رقم لایا تو میں اس کو واپس کردوں گا“ ، بعد میں اس کو سارق کا علم ہو اتو اب اس کے لیے جائز ہے کہ رقم کا مطالبہ کرے اور سارق رقم واپس کردے تو اس کو استعمال کرنا کیسا ہے؟
زید کا یہ کہنا کہ ” میں معاف کرتا ہوں “ ہبہ ہے یا صدقہ یا اس کے علاوہ کس زمرے میں آتا ہے؟ اور ”رقم لایا تو واپس کردوں گا“ یہ منت ونذر کے زمرے میں آتا ہے یا نہیں ؟
اگر ”مسروق منہ“ سارق کو یہ کہے کہ آپ یہ رقم مجھے ہبہ کریں تو یہ حیلہ کرنا کیسا ہے؟
صورتِ مسئولہ میں زید نے رقم چوری ہونے کے بعد جب چور کے بارے میں یہ کہا کہ : ””یا اللہ ! میں اس کو آپ کی رضا کے لیے معاف کرتا ہوں، اور اگر وہ رقم لایا تو میں اس کو واپس کردوں گا“ تو شرعًا یہ ”ابراء“ (بری کرنا، معاف کرنا) ہے، اس کا حکم یہ ہے کہ اگر زید کو یہ جملہ کہنے سے پہلے چور کے بارے میں علم تھا تو چور بری ہوگیا، ایسی صورت میں زید اس سے یہ رقم کا مطالبہ نہیں کرسکتا، البتہ چور اپنی رضا وخوشی سے زید کو یہ رقم دے دے تو یہ مستقل ”ہبہ “ ہوگا، اور اس کے لیے لینا جائز ہوگا۔ لیکن اگر زید کو مذکورہ جملہ کہتے وقت چور کا علم نہیں تھا، بلکہ بعد میں اس کا معلوم ہوا تو یہ ”إبراء“ درست نہیں ہوا؛ اس لیے کہ مجہول کا ابراء معتبر نہیں ہے، لہذا ایسی صورت میں زید کو اپنی رقم کے مطالبہ کا حق ہوگا۔
باقی زید کا یہ جملہ ”رقم لایا تو واپس کردوں گا“ یہ منت یا نذر نہیں ہے۔
فتاوى قاضيخان میں ہے :
"رجل له على رجل دين فبلغه أن المديون قد مات فقال جعلته في حل أو قال وهبته منه ثم ظهر أنه حي ليس للطالب أن يأخذ منه لأنه وهبه منه بغير شرط، رجل غصب عبداً أو ثوباً أو دابة أو دراهم وهي قائمة فأبرأه منها برئ الغاصب عن ضمان الغصب ويصير المغصوب أمانة في يده، وكذا لو قال المغصوب منه حللته من الغصب برئ الغاصب عن الضمان، وإن كان المغصوب مستهلكاً برئ الغاصب عن ضمان القيمة لأنه أبرأه عن الدين والدين يقبل الإبراء، فأما إذا كان المغصوب قائماً كان التحليل إبراء له عن سبب الضمان فتصير العين أمانة في يده عندنا."
(كتاب الغصب، فصل في براءةالغاصب و المديون، 3/ 124، ط: دارالكتب العلمية)
وفیہ أیضاً:
" رجل قال أبرأت جميع غرمائي ولم يسمهم بلسانه ولم يتوهم واحداً منهم بقلبه قال أبو القاسم رحمه الله تعالى روى ابن مقاتل عن علمائنا رحمهم الله تعالى أنهم لا يبرؤن لأن الإبراء إيجاب الحق للغرماء ولا يجوز إيجاب الحقوق إلا لقوم بأعيانهم."
(كتاب الغصب، فصل في براءة الغاصب و المديون، 3/ 125، ط: دارالكتب العلمية)
فتاوی شامی میں ہے:
"[تنبيه] زاد في البحر هنا قسما آخر، وعبارته ثم رأيت بعد ذلك في آخر غصب الخانية من مسائل الإبراء لو قال: كل غريم لي فهو في حل قال: ابن مقاتل لا يبرأ غرماؤه؛ لأن الإبراء إيجاب الحق للغرماء وإيجاب الحقوق لا يجوز إلا لقوم بأعيانهم، وأما كلمة كل في باب الإباحة فقال: في الخانية من ذلك الباب لو قال: كل إنسان تناول من مالي فهو له حلال قال: محمد بن سلمة: لا يجوز ومن تناوله ضمن، وقال: أبو نصر محمد بن سلام: هو جائز نظرا إلى الإباحة، والإباحة للمجهول جائزة ومحمد جعله إبراء عما تناوله والإبراء للمجهول باطل والفتوى على قول أبي نصر. اهـ. ويمكن أن يقال: في الضابط بعد قوله فهو على الواحد اتفاقا إن لم يكن فيه إيجاب حق لأحد فإن كان لم يصح ولا في واحد كمسألة الإبراء اهـ كلام البحر."
(كتاب البيوع، 4 / 542، ط: سعيد)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144511101362
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن