ایک آبادی جو کم و بیش 100 گھروں اور 300 سے 400 افراد پر مشتمل ہے، وہاں ایک مسجد ہے، جس میں تقریباً پندرہ سالوں سے جمعہ پڑھا جارہا ہے، آس پاس کی آبادی سے بھی بعض لوگ جمعہ میں شریک ہوتے ہیں، نمازِ جمعہ میں تقریبا 300 آدمی ہو تے ہیں اور عیدین میں تقریبا 900 سے ہزار کے قریب لوگ ہوتے ہیں، آس پاس کی بستیوں کے بعض لوگ جمعہ میں شریک نہیں ہوتے، وہ ظہر کی نماز ادا کر لیتے ہیں، نیز یہ آبادی بازار سےتقریباً 6 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے، اور ضروریاتِ زندگی کی اشیاءاس آبادی میں نہیں ملتی (مثلا گوشت، تازہ سبزی، دودھ وغیرہ) اس آبادی میں صرف دو دکانیں ہیں۔
دریافت طلب مسئلہ یہ ہے کہ:
(1) ایسی ابادی میں جمعہ کی نماز پڑھنا شرعاً درست ہے یا نہیں؟اور اب جمعہ کو جاری رکھا جائے یا ختم کر دیا جائے؟
(2)ایک عالم، مقتداء کے لیے اس جگہ جمعہ میں شریک ہونا درست ہے؟
(3)اگر جمعہ پڑھنا درست ہے تو آس پاس کی بستیوں کے لوگ جو جمعہ میں شریک نہیں ہوتے ظہر کی نماز پڑھتے ہیں ان کے لیے کیا حکم ہے؟
واضح رہے کہ قیامِ جمعہ کے لیے شہر /قصبہ /قریہ کبیرہ کا ہو نا شرط ہے جس کی مجموعی آبادی کم ازکم ڑھائی تین ہزار افراد پر مشتمل ہو اور وہاں روز مرہ کی ضروریاتِ زندگی بھی باآسانی میسر ہو، علاج و معالجہ کی سہولت بھی موجود ہو،اور وہاں کے پیش آمدہ مسائل/مقدمات کو حل کرنے کے لیے سرکار کے طرف سے قاضی مقرر ہو تو ایسی جگہ میں جمعہ کی نماز قائم کرنا شرعاً درست ہے، اور جہاں مذکورہ شرائط نہ پائی جائیں وہاں جمعہ كي نماز کا قائم کرناجائز نہیں، البتہ جن آبادی میں قیامِ جمعہ کی شرائط نہ پائی جانے کے باوجود عرصہ دراز سے جمعہ پڑھاجارہا ہو تو ایسی صورت میں اس آبادی کے باشندوں کو نرمی اور حکمتِ عملی کے ساتھ سمجھا کر اور مسائلِ فقہیہ سے آگاہ کر کے جمعہ کو موقوف کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، تاہم اگر اس میں فتنہ فساد کا اندیشہ ہوتو جاری رکھنا چاہیے۔
(1-2)صورتِ مسئولہ میں ذکر کردہ گاؤں میں قیامِ جمعہ کی شرائط نہ پائے پانے کی وجہ سے جمعہ قائم کرنا درست نہ تھا، تاہم قیامِ جمعہ کی شرائط مفقود ہونے کے باوجود جب اس گاؤں میں عرصہ دراز سے جمعہ جاری ہےتو ایسی صورت میں اس گاؤں کے اہلِ علم اور بااثر لوگوں کو چاہیے کہ اپنے گاؤ کے باشدوں کونرمی اور حکمت عملی کے ساتھ سمجھا بجھا کر جمعہ کی نماز کو موقوف کرنے کی کوشش کریں، البتہ اگر جمعہ کو موقوف کرنے کی صورت میں آپس میں انتشار اور فتنہ فساد کا اندیشہ ہو تو جمعہ جاری رکھیں، اور عوام و خواص سب لوگ جمعہ میں شریک ہوکر جمعہ کی نماز ادا کریں بلاوجہ انفرادی یا جماعت کی صورت میں ظہر کی نماز نہ پڑھیں۔
(3)جو لوگ اس بستی/گاؤں میں جمعہ پڑھنے کو جائز نہیں سمجھتے وہ نہ پڑھیں، انہیں جمعہ پڑھنے پر مجبور کرنا یا ان سے لڑنا جھگڑنا شرعاً درست نہیں، پڑھنے والے بھی گناہ گار نہیں ہیں اور نہ پڑھنے والے بھی گناہ گار نہیں، آپس میں اختلاف اور فتنہ فساد پیدا کرنا حرام ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"وتقع فرضًا في القصبات و القرى الكبيرة التي فيها أسواق، وفيما ذكرنا إشارة إلى أنها لاتجوز في الصغيرة."
(كتاب الصلاة، باب الجمعة، ج:2، ص:138، ط:شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي)
البحر الرائق میں ہے:
"(قوله شرط أدائها المصر) أي شرط صحتها أن تؤدى في مصر حتى لا تصح في قرية، ولا مفازة لقول علي رضي الله عنه لا جمعة، ولا تشريق، ولا صلاة فطر، ولا أضحى إلا في مصر جامع أو في مدينة عظيمة رواه ابن أبي شيبة وصححه ابن حزم وكفى بقوله قدوة وإماما، وإذا لم تصح في غير المصر فلا تجب على غير أهله."
(كتاب الصلاة، باب صلاة الجمعة، ج:2، ص:151، ط:دار الكتاب الإسلامي)
فتاوی دار العلوم دیوبند میں ہے:
"ڈھائی ہزار کی آبادی میں جمعہ جائز ہے یا نہیں
سوال: موضع راکھیڑہ میں مسلمانوں کی آبادی ڈھائی ہزار کی ہے ،چار مسجدیں ہیں اور بزازوں و عطاروں کی بہت دوکانیں ہیں اور ہمیشہ سے جمعہ ہوتا ہے اس گاؤں میں جمعہ جائز ہے یا نہیں؟
الجواب : ظاہرا وہ بڑا گاؤں ہے اور بڑے قریہ میں جمعہ عند الحنفیہ واجب ہوتا ہے۔"
(كتاب الجمعہ ج:5، ص:125، ط:دار الاشاعت)
کفایت المفتی میں ہے:
"حنفی مذہب کے موافق قریٰ یعنی دیہات میں جمعہ صحیح نہیں ہوتا اس لئے اگر کسی گاؤں میں پہلے سے جمعہ قائم نہیں ہے تو وہاں جمعہ قائم نہ کرنا چاہئے کیونکہ حنفی مذہب کے موافق اس میں جمعہ صحیح نہ ہوگا اور فرض ظہر جمعہ پڑھنے سے ساقط نہ ہوگا لیکن اگر وہاں قدیم الایام سے جمعہ قائم ہے تو اس کی دو صورتیں ہیں یا یہ کہ اسلامی حکومت میں بادشاہ اسلام کے حکم سے قائم ہوا تھا تو حنفی مذہب کی رو سے بھی وہاں جمعہ صحیح ہوتا ہے اس لئے بند کرنا درست نہیں،یا یہ کہ بادشاہ اسلام کے حکم سے قائم ہونا ثابت نہیں یا یہ معلوم ہے کہ مسلمانوں نے خود قائم کیا تھا مگر ایک زمانہ دراز سے پڑھا جاتا ہے اس صورت میں حنفی مذہب کے اصول کے موافق تو اسے بند کرنا چاہئیے یعنی بند کرنا ضروری ہے لیکن چونکہ عرصہ دراز کے قائم شدہ جمعہ کو بند کردینے میں جو فتنے اور مفاسد پیدا ہوتے ہیں ان کے لحاظ سے اس مسئلے میں حنفیہ کو شوافع کے مذہب پر عمل کرلینا جائز ہے اور جب کہ وہ شوافع کے مذہب پر عمل کرے جمعہ پڑھیں گے تو پھر ظہر ساقط نہ ہونے کے کوئی معنی نہیں مسئلہ مجتہد فیہ ہے اور مفاسد لازمہ عمل بمذہب الغیر کے لئے وجہ جواز ہیں ۔"
(کتاب الصلوۃ، باب نماز جمعہ،ج:3، ص: 240، ط:مکتبہ فاروقیہ)
فیہ ایضاً:
"جہاں کافی عرصہ سے جمعہ پڑھا جاتا ہو
سوال: ایک بستی میں ہمیشہ سے لوگ جمعہ پڑھتے ہیں اب ایک مولوی صاحب بند کرانا چاہتے ہیں یہ جائز ہے یا نہیں ؟ اس ملک گجرات میں چھوٹی چھوٹی بستیاں ہندوؤں کی بسائی ہوئی ہیں اور ان میں پانچ یا سات گھر مسلمانوں کے ہوں وہاں جمعہ شروع کرنا جائز ہے یا نہیں ؟
جواب: جن بستیوں میں قدیم سے جمعہ پڑھا جاتا ہے اور جمعہ چھوڑانے سے لوگ نماز پنج وقتہ بھی چھوڑ دیتے ہیں ایسی بستیوں میں جمعہ پڑھنا چاہئیے تاکہ اسلام کی رونق اور شوکت قائم رہے اور جو لوگ کہ ایسے گاؤں میں جمعہ پڑھنے کو جائز نہیں سمجھتے وہ نہ پڑھیں ان سے جھگڑا نہیں کرنا چاہئیے پڑھنے والے بھی گناہ گار نہیں ہیں اور نہ پڑھنے والے بھی گناہ گار نہیں آپس میں اختلاف اور فتنہ و فساد پیدا کرنا حرام ہے، ہاں جن چھوٹے گاؤں میں پہلے سے جمعہ قائم نہیں ہے وہاں قائم نہ کریں اور جہاں پہلے سے قائم تھا پھر چھوڑ دیا اور اس کی وجہ سے لوگوں نے نماز جمعہ چھوڑ دی وہاں پھر شروع کردیں ۔ "
(کتاب الصلوۃ،باب نماز جمعہ،ج:3،ص: 236، ط:مکتبہ فاروقیہ)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144604100112
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن