ایک بالغ لڑکا اور ایک بالغ لڑکی، دو گواہوں کی موجودگی میں نکاح کر لیتے ہیں، نکاح کے بعد لڑکی اپنے والدین کے گھر چلی جاتی ہے اور عرصہ تقریبًا ایک سال لڑکی اپنے والدین کے گھر رہتی ہے، اس کے گھر والوں میں سے کسی کو بھی مذکورہ نکاح کا پورا سال علم نہیں ہے، اس ایک سال کے عرصہ میں وہ لڑکی اور لڑکا ملتے رہتے ہیں اور حقوقِ زوجین ادا کرتے رہتے ہیں، لڑکی اس عرصہ میں والدین کے گھر رہتی ہے، ایک سال تک وہ لڑکا، لڑکی کے والدین سے رشتہ مانگتا رہتا ہے، ایک سال بعد، با لآخر اس لڑکی کے والدین اس لڑکے کو رشتہ دینے پر رضا مند ہوجاتے ہیں، نکاح کی تاریخ والدین رکھتے ہیں، والدین کی موجودگی میں دوبارہ نکاح ہوتا ہے اور لڑکی کی رخصتی والدین کر دیتے ہیں۔ قرآن و سنت کی روشنی میں اب پوچھنا یہ ہے کہ کون سا نکاح معتبر ہو گا؟
1 سال پہلے والا، جو صرف لڑکا اور لڑکی نے 2 گواہوں کی موجودگی میں کیا یا وہ نکاح جو لڑکی کے والدین کی موجودگی میں ہوا اور رخصتی بھی ہوئی؟
شریعتِ مطہرہ نے اسلامی معاشرے کو جنسی بے راہ روی سے بچاکر تسکینِ شہوت کے لیے اور اسے اعلی اَقدار پر استوار کرنے اور صالح معاشرے کی تشکیل کے لیے نکاح کا حلال راستہ متعین کیا ہے، اور نکاح کی صورت میں ہم بستری و جسمانی تعلقات قائم کرنے کو حلال کردیا ہے جب کہ اس کے علاوہ تسکینِ شہوت کے دیگر تمام ذرائع کو حرام قرار دیاہے۔ نیز نکاح چوں کہ تسکینِ شہوت کا حلال ذریعہ ہے اس وجہ سے نکاح کے اعلان کے حکم کے ساتھ ساتھ مساجد میں نکاح کی تقریب منعقد کرنے کی ترغیب بھی دی ہے؛ تاکہ اس حلال و پاکیزہ بندھن سے بندھنے والے افراد پر حرام کاری کا الزام لگانے کا موقع کسی کو نہ ملے اور ایک پاکیزہ معاشرہ وجود میں آ سکے جو نسلِ انسانی کی بقا کا ذریعہ ہو۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
’’عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم: أَعْلِنُوا هَذَا النِّكَاحَ، وَاجْعَلُوهُ فِي الْمَسَاجِدِ ...‘‘ الحديث. (سنن الترمذي، باب ما جاء في إعلان النكاح)
لہذا صورتِ مسئولہ میں والدین اور معاشرے سے چھپ کر نکاح کرنا شرعًا، عرفًا اور اخلاقًا پسندیدہ عمل نہیں تھا، تاہم اگر مجلسِ نکاح میں لڑکا لڑکی اور شرعی گواہ موجود تھے تو نکاح شرعاً منعقد ہو چکا تھا، البتہ اگر لڑکا لڑکی کا کفو (کفو کا مطلب یہ ہے کہ لڑکا دین، دیانت، نسب، مال و پیشہ اور تعلیم میں لڑ کی کے ہم پلہ ہو، اس سے کم نہ ہو، نیز کفاءت میں مرد کی جانب کا اعتبار ہے یعنی لڑکے کا لڑکی کے ہم پلہ اور برابر ہونا ضروری ہے، لڑکی کا لڑکے کے برابر ہونا ضروری نہیں ہے۔ ) نہیں تھا تو لڑکی کے والد کو اس نکاح کا علم ہونے کے بعد عدالت سے رجوع کرکے نکاح ختم کرنے کا حق تھا، لیکن جب لڑکی کے والد نے باقاعدہ نکاح کی اجازت دے دی تو ان کی رضامندی پائے جانے کے بعد یہ اختیار بھی ختم ہوگیا؛ لہذا دوبارہ نکاح کرنے کی ضرورت نہیں تھی، اصل نکاح پہلے والا ہی شمار ہوگا۔
تاہم باقاعدہ مہر مقرر کرکے جو دوسرا نکاح کیا گیا ہے، اگر اس میں مقرر کردہ مہر پہلے نکاح میں مقرر کیے گئے مہر سے زیادہ ہے، اور دوسرے نکاح کے مہر سے شوہر کا مقصود مہر میں زیادتی ہے تو مہر میں اضافہ بھی لازم ہوگا۔
فتاوی شامی میں ہے:
"( فنفذ نكاح حرة مكلفة لا ) رضا ( ولي ) والأصل أن كل من تصرف في ماله تصرف في نفسه وما لا فلا ( وله ) أي للولي (إذا كان عصبةً) ولو غير محرم كابن عم في الأصح، خانية. وخرج ذوو الأرحام والأم وللقاضي (الاعتراض في غير الكفء) فيفسخه القاضي ويتجدد بتجدد النكاح ( ما لم ) يسكت حتى ( تلد منه)". ( الدر المختار مع رد المحتار، كتاب النكاح ، باب الولي ۳/۵۵ و ۵٦ ط: سعيد)
"يستحب للمرأة تفويض أمرها إلى وليها كي لاتنسب إلى الوقاحة، بحر. وللخروج من خلاف الشافعي في البكر، وهذه في الحقيقة ولاية وكالة ( أيضاً)".
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144202201468
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن