شرعی نقطہ نظر سے کامرس کے مضامین (معاشیات، اکاؤنٹنگ، بینکاری، اسلامی معاشیات) کی درس و تدریس کے متعلق رہنمائی فرمائیں۔
واضح رہے کہ کامرس اور معاشیات وغیرہ مضامین کی تعلیم حاصل کرنے کی شرعا گنجائش ہے، البتہ نیت کی اصلاح ضروری ہے، یعنی یہ نیت ہو کہ مذکورہ تعلیم کے ذریعے معاشی معاملات کے مروجہ نظام سمجھ میں آئیں، معاملات کی نئی نئی صورتوں سے آگاہی ہو تاکہ ان سے متعلقہ مسائل سمجھنے میں آسانی ہو۔ نیز مغربی استعمار نے جو معاشی نظام دنیا پر مسلط کیا ہوا ہے، اس کی خرابیوں کو جان کر ان سے نجات حاصل کرنے میں اور ان کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کیلئے مدد ملے۔
نیز ان مضامین کے نصاب میں جن غیر شرعی معاملات کی تعلیم دی جاتی ہے (جیسا کہ بینکنگ کے مضمون میں ہوتا ہے) اس کے سیکھنے کی بھی اس نیت کے ساتھ گنجائش ہوگی کہ سودی معاملات اور فاسد عقود کے طریقہ کار وغیرہ سے آگہی ہوجائے؛ تاکہ ان معاملات سے خود بھی بچا جائے اور دوسروں کو بھی اس سے بچایا جائے، اور پڑھنے والا یہ نیت کرے کہ اس نظام میں جو باتیں شریعت کے خلاف ہیں ان کی اصلاح کروں گا، اور انہیں اسلامی خطوط پر استوار کرنے اور شریعت کے حکم کے مطابق بنانے اور ملک کے تمویلی نظام کو سود سے پاک کرنے کی اپنی بساط کی حد تک پوری کروشش کروں گا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد کسی بھی قسم کے سودی معاملات میں معاون بننے یا سودی اداروں میں ملازمت مقصد نہ ہو ۔
جامعہ کے قدیم فتاویٰ میں مذکورہ مسئلہ کے بارے میں لکھا ہے:
" کامرس کی تعلیم حاصل کرنا اور اس کی ڈگری لینا جب کہ اس میں غیر شرعی تجارت کی تعلیم نہ ہوجائز ہے اور اس کی بنیاد پر جائز نوکری کرنا درست ہے، فی نفسہ کسی نظام کی تعلیم حاصل کرنا جب کہ وہ خلاف شرع نہ ہو منع نہیں ہے۔" (کتبہ: مفتی ابوبکر سعید الرحمن صاحب، تصدیق: مفتی محمد عبد السلام صاحب)
الأشباه والنظائر میں ہے:
’’القاعدة الثانية: الأمور بمقاصدها، كما علمت في التروك. وذكر قاضي خان في فتاواه: إن بيع العصير ممن يتخذه خمراً إن قصد به التجارة فلا يحرم، وإن قصد به لأجل التخمير حرم، وكذا غرس الكرم على هذا (انتهى). وعلى هذا عصير العنب بقصد الخلية أو الخمرية، والهجر فوق ثلاث دائر مع القصد، فإن قصد هجر المسلم حرم وإلا لا‘‘. (الأشباه والنظائر لابن نجيم (ص: 23)، الفن الاول: القواعد الکلیۃ، ط: دار الكتب العلمية، بيروت – لبنان)
(ایضا ، امداد الفتاوی 3/168، مکتبہ دارالعلوم کراچی)
شامی میں ہے:
وَأَمَّا فَرْضُ الْكِفَايَةِ مِنْ الْعِلْمِ، فَهُوَ كُلُّ عِلْمٍ لَا يُسْتَغْنَى عَنْهُ فِي قِوَامِ أُمُورِ الدُّنْيَا كَالطِّبِّ وَالْحِسَابِ وَالنَّحْوِ وَاللُّغَةِ وَالْكَلَامِ وَالْقِرَاءَاتِ وَأَسَانِيدِ الْحَدِيثِ وَقِسْمَةِ الْوَصَايَا وَالْمَوَارِيثِ وَالْكِتَابَةِ ۔۔۔۔وَالْعِلْمِ بِأَعْمَارِهِمْ وَأُصُولِ الصِّنَاعَاتِ وَالْفِلَاحَةِ كَالْحِيَاكَةِ وَالسِّيَاسَةِ وَالْحِجَامَةِ. اهـ.
(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)-[مقدمة]- صفحة -42، ط: سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144203201296
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن