بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

کمپنی کا ملازمین کو بونس دینا اور اس پر انٹرسٹ کی رقم دینے کا حکم


سوال

ہماری کمپنی کو جو سالانہ فائدہ ہوتا ہے، اس میں سے پانچ فیصد اپنے ورکرز کو دیتی ہے، کمپنی کو جو سالانہ پیسے ملتے ہیں، اس میں بینک  کے انٹرنس/فائدے کی رقم بھی شامل ہوتی ہے، کمپنی کے پیسے+بینک انٹرنس ملا کر پانچ فیصد ورکرز میں تقسیم کیا جاتا ہے، اس صورتحال میں ورکرز کیا کریں ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں کمپنی اور بینک کے درمیان جو مذکورہ سودی معاملہ ہے، اس میں سودی معاملہ کا ذمہ دار کمپنی کی انتظامیہ ہے، چونکہ اس میں  ملازمین کا کوئی عمل دخل نہیں ہے، ملازمین کے لیے کمپنی کی طرف سے ملنے والی رقم کا لینا جائزہے۔

جواہر الفقہ میں  ہے:

"جبری پراویڈنٹ فنڈ پہ سود کے نام پر جو رقم ملتی ہے  ،وہ شرعًا سود نہیں ، بلکہ اجرت(تنخواہ) ہی کا ایک حصہ ہے،  اس کا لینا اور اپنے استعمال میں لانا جائز  ہے  ۔"

(جواہر الفقہ ، ج:3،ص:257،ط:مکتبہ دار العلوم کراچی)

البحر الرائق میں  ہے :

"(قوله: بل بالتعجيل أو بشرطه أو بالاستيفاء أو بالتمكن) يعني لايملك الأجرة إلا بواحد من هذه الأربعة، والمراد أنه لايستحقها المؤجر إلا بذلك، كما أشار إليه القدوري في مختصره، لأنها لو كانت دينًا لايقال: إنه ملكه المؤجر قبل قبضه، وإذا استحقها المؤجر قبل قبضها، فله المطالبة بها وحبس المستأجر عليها وحبس العين عنه، وله حق الفسخ إن لم يعجل له المستأجر، كذا في المحيط. لكن ليس له بيعها قبل قبضها".

(البحر الرائق ج:7، ص:300، ط: دارالكتاب الإسلامي)

فقط واللہ أعلم 


فتوی نمبر : 144509101965

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں