بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

کمپنی کے ہال میں جمعہ پڑھنے کا حکم


سوال

ہم ایک کمپنی میں کام کرتے ہیں اور اس کمپنی کے ورکروں کی تعداد 160کے قریب ہے، ہمارے پاس مسجد کے متبادل ایک ہال ہے، ہم لوگ اس میں باجماعت نماز ادا کرتے ہیں، وہ بھی پانچ وقت، کیوں کہ جامع مسجد تھوڑی دور ہے، کیا ہم اسی ہال میں جمعہ کا خطبہ پڑھا کر جمعہ کی نماز ادا کر سکتے ہیں؟

جواب

واضح رہے کہ جمعہ کا قیام شعائرِ دین میں سے ہے  اس میں مسلمانوں کی شوکت کا اظہار بھی ہے، مسلمانوں کا جتنا بڑا مجمع جمع ہوکر خشوع و خضوع سے عبادت کرتاہے اور دعا کرتاہے، اللہ تعالیٰ ان کی دعائیں بھی قبول فرماتے ہیں اور اپنی رحمت بھی نازل فرماتے ہیں، اس لیےجامع مسجد میں جاکر  جمعہ پڑھناسنت اور افضل ہے، اس میں مسلمانوں کی شان و شوکت کا اظہار بھی ہے، اگرچہ جمعہ کی نماز کے صحيح  ہونےکے لیے  جامع مسجدیا عام مسجد کا ہونا کچھ شرط نہیں ہے،  بلکہ شہر یا فنائے شہر میں کہیں  پربھی جمعہ کی نماز پڑھنا جائز  ہے، لیکن  اس کے باوجودبہتر یہ ہے کہ جامع مسجد  میں جمعہ کی نماز پڑھنے کو ترجیح دی جاۓ۔

لہذا  صورتِ مسئولہ میں آپ حضرات  یہی کوشش کریں کہ  جمعہ کی نماز کے لیے  تھوڑی بہت مشقت  برداشت کرکے جامع مسجد میں   جمعہ کی  نماز کی ادائیگی کا اہتمام کریں، کیوں کہ جمعہ کی نماز جامع  مسجد میں پڑھنا افضل اور سنت ہے، تاہم اس کے باوجود اگر مذکورہ ہال میں  جمعہ کی نماز پڑھ لی جائے تو اس صورت میں  بھی جمعہ کی نماز ادا ہوجائے گی۔

تفسیرِ کبیر میں ہے:

"ولما جعل يوم الجمعة يوم شكر وإظهار سرور وتعظيم نعمة احتيج فيه إلى الاجتماع الذي به تقع شهرته فجمعت الجماعات له كالسنة في الأعياد، واحتيج فيه إلى الخطبة تذكيرا بالنعمة وحثا على استدامتها بإقامة ما يعود بآلاء الشكر، ولما كان مدار التعظيم، إنما هو على الصلاة جعلت الصلاة لهذا اليوم وسط النهار ليتم الاجتماع."

(سورة الجمعة، يا أيها الذين آمنوا إذا نودي للصلاة الخ،543/30،ط:دار إحياء التراث العربي)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما الشرائط التي ترجع إلى غير المصلي فخمسة في ظاهر الروايات، المصر الجامع، والسلطان، والخطبة، والجماعة، والوقت."

(كتاب الصلاة،فصل بيان شرائط الجمعة، 259/1،ط:دار الکتب العلمیة)

حلبي كبير میں ہے:

"ففي الفتاوى الغياثية : لو صلى الجمعة في قرية بغير مسجد جامع والقرية كبيرة لها قرى، وفيها وال وحاكم، جازت الجمعة، بنو المسجد أو لم يبنوا، وهو قول أبي قاسم الصفار، وهذا أقرب الأقاويل إلى الصواب، انتهى، و هو ليس ببعيد مما قبله. والمسجد الجامع ليس بشرط، ولهذا أجمعوا على جوازها بالمصلى في فناء المصر، و هو ما اتصل بالمصر معداً لمصالحه من ركض الخيل و جمع العساكر والمناضلة ودفن الموتى وصلوة الجنازة و نحو ذلك؛ لأن له حكم المصر باعتبار حاجة أهله إليه."

(كتاب الصلوة،فصل صلوة الجمعة، ص:551،ط:سهيل اكيڈمي)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144511101479

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں