ایزی پیسہ کا کام کرنے والے لوگ جب کسی کے موبائل اکاؤنٹ میں پیسے بھیجتے ہیں تو پہلے اسے کہتے ہیں کہ 10000 بھیجنے پر مجھے 100 کمیشن دوگے، ورنہ میں نہیں بھیج سکتا، حال آں کہ کمپنی والے بھی اسے تقریباً 10000 پر 40 تک کمیشن دیتے ہیں۔ اور اس سے بھی 29% ٹیکس کمپنی کاٹتی ہے دوکاندار سے ، اب وہ کسٹمر مجبوری کی وجہ سے دوکاندار کو اضافی کمیشن دیتے ہیں حال آں کہ کافی کسٹمر خوشی سے دیتے ہیں اور کافی ناراض ہوکر، جب پیسے کسٹمر کے اکاؤنٹ میں جمع ہوجاتے ہیں تو کمپنی کا میسج آتا ہے کہ اس ٹرانزکشن کی کوئی فیس نہیں ہے، کیا یہ سود ہے کہ نہیں؟ کیوں کہ عام لوگ تو اسے سود کہتے ہیں ، وضاحت فرمائیں حوالے کے ساتھ؛ تاکہ عام لوگوں کو بھی دکھایا جاۓ ؛ کیوں کہ وہ زبانی بات کو مانتے نہیں!
صورتِ مسئولہ میں رقوم کی منتقلی پر کمپنی کی جانب سےجب کوئی فیس وصول نہیں کی جاتی اور کمپنی اپنے نمائندہ کو مقررہ شرح کے مطابق اجرت بھی دیتی ہے اور ان کو کسٹمر سے زائد رقم وصول نہ کرنے کا پابند بھی کرتی ہے، تو اس صورت میں کمپنی کے نمائندوں کے لیے کسٹمر سے زائد رقم وصول کرنا شرعاً ناجائز ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا، فذاك حرام عليهم."
(مطلب في أجرة الدلال، ج:6، ص:63، ط:ايج سعيد)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 200074
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن