بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

1 ذو القعدة 1446ھ 29 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

کمپنی میں اضافی کام پرالگ پیسے لیناکیساہے


سوال

(1)میں ایک کمپنی میں ملازمت کرتا ہوں میری ذمہ داری اکاونٹس کی ہے۔ یعنی کھاتہ دیکھنے کی نوکری ہے۔ کمپنی والے کبھی مجھ سے اپنے کام کے علا وہ (میری ذمہ داری کے علاوہ کوئی دوسرا کام کرواتے ہیں ، اس کا مجھ سے پوچھ لیتے ہیں، میں معاوضہ بتا دے تا ہوں ۔ اس معاوضہ کے بدلے یہ کام میں کر لیتا ہوں ۔ کیا یہ کام میرے لئے جائز ہے۔

(2)کبھی مثلاً کمپنی مجھ سے کہتا ہے کہ اتنے رجسٹر یا پیپر یا کوئی اور چیز کا کہ یہ چیز لے آؤ تو میں اپنی ڈیوٹی کے وقت کے علاوہ میں یہ کام کرتا ہوں اور ان چیزوں میں اپنے لئے منافع رکھتا ہوں ۔ مثلا کسی چیز کی قیمت 250 ہے میں 300 کی دیتا ہوں کیا یہ منافع میرے لئے جائز ہے کہ نہیں۔

نوٹ: میری ڈیوٹی کی ذمہ داری جو ہوتی ہے، وہ میں مکمل سر انجام دیتا ہوں۔

 

جواب

(1)صورت مسئولہ میں کمپنی  کی جانب سے جو ذمہ داری سائل کی ہے ، جس کی اسے باقاعد تنخواہ دی جاتی ہے، اس ذمہ داری  کے علاوہ اگر کمپنی مالکان اپناذاتی کوئی کام سائل سےکرواتے ہوں ،اور سائل ڈیوٹی اوقات کے علاوہ وہ کام محنتانہ طے کرکے کرتاہو،تو ایسا کرنا سائل کے  لیے جائز ہوگا،اور وصول کردہ محنتانہ سائل کے لیے حلال ہوگا،بشرطیکہ سائل سے کوئی ناجائز کام نہ کروایا جائے۔

(2)کمپنی کی طرف سےکسی چیز کی خریداری کے لیے سائل کو بھیجے جانے کی صورت میں سائل کی حیثیت وکیل بالشراء(خریداری کاوکیل) کی ہوگی، اس صورت میں سائل کے لیے قیمت  خرید پر اپناکمیشن لگا کرکمپنی سے زائد رقم وصول کرنا  ناجائز ہوگا۔نیزسائل چونکہ کمپنی کاملازم ہے،  اور کمپنی اسے تنخواہ دیتی ہے، لہذا اضافی کام کرنے سے قبل اضافی محنتا نہ اگرباہمی رضامندی سے طے کرلیا جائے، یاکمپنی اپنی خوشی سے کچھ اضافی رقم سائل کی خدمت کے عوض دے دے تو وہ لینا سائل کے لیے جائز ہوگا۔ 

فتاویٰ ہندیۃ میں ہے:

"ثم الأجرة تستحق بأحد معان ثلاثة إما بشرط التعجيل أو بالتعجيل أو باستيفاء المعقود عليه فإذا وجد أحد هذه الأشياء الثلاثة فإنه يملكها."

(کتاب الإجارۃ، الباب الثانی، ج: 4، ص: 413، ط: دار الفکر)

درر الحکام فی شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"(إذا شرطت الأجرة في الوكالة وأوفاها الوكيل استحق الأجرة، وإن لم تشترط ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعا. فليس له أن يطالب بالأجرة) يستحق في الإجارة الصحيحة الأجرة المسمى. وفي الفاسدة أجر المثل ...لكن إذا لم يشترط في الوكالة أجرة ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعا، وليس له أن يطلب أجرة. أما إذا كان ممن يخدم بالأجرة يأخذ أجر المثل ولو لم تشترط له أجرة."

(الکتاب الحادی عشر الوکالة، الباب الثالث، الفصل االأول، المادۃ:1467،  ج: 3، ص: 573، ط: دار الجيل)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144610100991

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں