زید کا میڈیکل اسٹور ہے میڈیکل اسٹور میں بہت ساری ادویات پرانے ریٹ پر موجود ہیں درانحالیکہ میڈیسن کمپنی مختلف ادویات کا ریٹ بڑھا دیتی ہے تو کیا زید کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنی دکان میں موجود پرانے ریٹیل کی ادویات کا ریٹ مٹا کر نئے ریٹ پر بیچےکیا یہ عمل جائز ہے یا ناجائز ؟
شریعتِ مطہرہ نے خرید و فروخت کی صحت کا مدار عاقدین کی باہمی رضامندی پر رکھا ہے اور منافع کی مخصوص حد مقرر نہیں کی، بلکہ اس معاملہ کو عرف پر چھوڑ دیا ہے، تاہم تاجر کو اس بات کا پابند بھی کیا ہے کہ وہ کسی کی مجبوری کا غلط فائدہ نہ اٹھائے اور لوگوں کے ساتھ خیر خواہی کرے، اس لیے اتنا منافع لینا چاہیے جس میں فروخت کرنے والے کے ساتھ ساتھ خریدار کی مصالح کی بھی رعایت رہے، اور اس کو اس سے ضرر نہ پہنچے۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں پرانی قیمت پر خریدا گیا مال چوں کہ دکاندار کی ملکیت ہے، ا س لیے اگر وہ اسے جدید ریٹ کے حساب سے فروخت کرے تو شرعًا اس کی اجازت ہے ، مناسب نفع کے ساتھ نئی قیمت پر یا اس سے کچھ کم پر بیچنا جائز ہے ۔
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
"ومن اشترى شيئًا وأغلى في ثمنه فباعه مرابحة على ذلك جاز وقال أبو يوسف - رحمه الله تعالى - إذا زاد زيادة لايتغابن الناس فيها فإني لاأحب أن يبيعه مرابحة حتى يبين."
(كتاب البيوع، الباب الرابع عشر، جلد:3، صفحه: 161، طبع: دار الفكر)
درر الحكام في شرح مجلة الأحكام میں ہے :
"(المادة 153) الثمن المسمى هو الثمن الذي يسميه ويعينه العاقدان وقت البيع بالتراضي سواء كان مطابقاً للقيمة الحقيقية أو ناقصاً عنها أو زائداً عليها".
(1/ 124،ط:مکتبۃ الطارق)
فتاویٰ شامی میں ہے :
"(و لایسعر حاکم) لقوله علیه الصلاۃ والسلام: لاتسعروا فان اللہ ھو المسعر القابض الباسط الرازق (الا اذا تعدي الارباب عن القیمة تعدیا فاحشا فیسعر بمشورۃ اھل الراي)."
(کتاب البیوع ،400/6، ط: سعید)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144508101731
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن