بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 ذو الحجة 1445ھ 03 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

کووڈ 19 کی ویکسین کا حکم


سوال

علمائے کرام کا ویکسین کووڈ - 19   لگانے یا نہ لگانے  کے بارے  میں موقف/فتوی کیا ہے ؟ 

جواب

موجودہ  حالات  میں کرونا وائرس کا جو انجیکشن مرض سے  بچاؤ کے  لیے بطور  ویکسین  لگایا جارہاہے، چوں کہ یہ ویکسین احتیاط کے طور  پر مبینہ بیماری سے بچاؤ اور پیشگی علاج  کے طور پر لگائی جارہی ہے، یقینی بیماری کا علاج اس سے مقصود نہیں؛ اس لیے اس کا شرعی حکم یہ ہے کہ اگر کوئی ماہر دیندار ڈاکٹر اس بات کی تصدیق کردے کہ یہ مضر صحت نہیں اور  تجربہ سے اس کا مفید ہونا ثابت ہوجائے، نیز اس میں کوئی حرام یا ناپاک چیز ملی ہوئی ہونے کا یقین یا ظن غالب نہ ہو تو اس کا لگانا جائز ہے، اور اگر حرام یا ناپاک چیز ملی ہوئی ہونے کا یقین یا ظن غالب ہو تو اس کا استعمال جائز نہیں ہوگا۔ 

البتہ کرونا کے کسی مریض کو  بطور دوا یہ انجیکشن لگایا جائے تو اس صورت میں اگر اس میں حرام اجزاء کی آمیزش کا یقین یا غالب گمان نہیں تو استعمال جائز ہے، لیکن اگر حرام کی آمیزش کا قرائن سے معلوم ہوجائے تو یقینی بیماری کی صورت میں اس کا استعمال اس وقت تک جائز نہیں جب تک مسلمان ماہر دیندار طبیب یہ نہ کہ دے کہ اس بیماری کا علاج کسی بھی حلال چیز سے ممکن نہیں، بلکہ یہی حرام اجزاء ملی دوا ضروری ہے اور تجربے سے اس کا مفید ہونا ثابت ہوجائے تو ایسی اضطراری ( مجبوری ) حالت میں بطور دوا وعلاج بقدر ضرورت حرام اجزاء پر مشتمل انجیکشن کے استعمال کی اجازت ہوگی ۔

تاہم کسی کو ویکسین لگوانے پر مجبور کرنا درست نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے :

"قوله: (اختلف في التداوي بالمحرم) ففي النهاية عن الذخيرة يجوز إن علم فيه شفاء ولم يعلم دواء آخر  وفي الخانية في معنى قوله عليه الصلاة والسلام: إن الله لم يجعل شفاءكم فيما حرم عليكم، كما رواه البخاري أن ما فيه شفاء لا بأس به، كما يحل الخمر للعطشان في الضرورة، و كذا اختاره صاحب الهداية في التجنيس، فقال: لو عرف فكتب الفاتحة بالدم على جبهته وأنفه جاز للاستشفاء وبالبول أيضا إن علم فيه شفاء لا بأس به لكن لم ينقل وهذا لأن الحرمة ساقطة عند الاستشفاء كحل الخمر والميتة للعطشان والجائع ا هـ   من البحر   وأفاد سيدي عبد الغني أنه لا يظهر الاختلاف في كلامهم لاتفاقهم على الجواز للضرورة واشتراط صاحب النهاية العلم لا ينافيه اشتراط من بعده الشفاء ولذا قال والدي في شرح الدرر إن قوله لا للتداوي محمول على المظنون وإلا فجوازه باليقين اتفاق كما صرح به في المصفى ا هـ  أقول وهو ظاهر موافق لما مر في الاستدل لقول الإمام لكن قد علمت أن قول الأطباء لا يحصل به العلم  والظاهر أن التجربة يحصل به العلم والظاهر أن التجربة يحصل بها غلبة الظن دون اليقين إلا أن يريدوا بالعلم غلبة الظن وهو شائع في كلامهم  تأمل  قوله: (وظاهر المذهب المنع) محمول على المظنون كما علمته  قوله: (لكن نقل المصنف الخ) مفعول نقل قوله وقيل يرخص الخ والاستدراك على إطلاق المنح وإذا قيد بالمظنون فلا استدراك  ونص ما في الحاوي القدسي إذا سال الدم من أنف إنسان ولا ينقطع حتى يخشى عليه الموت وقد علم أنه لو كتب فاتحة الكتاب أو الإخلاص بذلك الدم على جبهته ينقطع فلا يرخص له ما فيه وقيل يرخص كما رخص في شرب الخمر للعطشان وأكل الميتة في المخمصة وهو الفتوى ا هـ  قوله: (ولم يعلم دواء آخر) هذا المصرح به في عبارة النهاية كما مر وليس في عبارة الحاوي إلا أنه يفاد في قوله: كما رخص الخ لأن حل الخمر والميتة حيث لم يوجد ما يقوم مقامهما أفاده ط قال: و نقل الحموي أن لحم الخنزير لايجوز التداوي به وإن تعين والله تعالى أعلم."

(کتاب الطہارۃ  باب المیاہ جلد 1 / 210 / ط : دار الفکر )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212201512

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں