بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

کریڈٹ کارڈ کے ذریعہ خریداری کرکے نفع حاصل کرنا


سوال

 زید کے پاس کریڈٹ کارڈ ہے اور وہ اس سے ای کامرس سے کوئی بھی چیز خریدتا ہے تو اس پر اسے 10 پرسنٹ نفع ملتا ہے اور اگر وہی چیز ڈیبٹ کارڈ سے خریدتا ہے تو اس پر اسے کوئی نفع نہیں ملتا تو کیا کریڈٹ کارڈ سے کوئی چیز خرید سکتے ہیں؟

جواب

کریڈٹ کارڈ کااستعمال اوراس کے ذریعے خریدوفروخت درست نہیں ہے، اس لیے کہ کسی  معاملے کے حلال وحرام ہونے  کی بنیاد درحقیقت وہ معاہدہ ہوتا ہے جو فریقین کے درمیان طے پاتا ہے، کریڈٹ کارڈ لینے والا کریڈٹ کارڈ جاری کرنے والے اداروں کے ساتھ یہ معاہدہ کرتا ہے کہ اگر مقررہ مدت میں لی جانے والی رقم واپس نہ کر سکا تو ایک متعین شرح کے ساتھ جرمانہ کے نام پر سود ادا کروں گا، شریعت میں  جس طرح سود لینا حرام ہے، اسی طرح اس کا معاہدہ کرنا بھی شرعاًحرام ہے، اس بنیاد پر بالفرض اگر کریڈٹ کارڈ لینے والا شخص لی گئی رقم مقررہ مدت میں واپس بھی کردے تو معاہدہ سودی ہونے کی وجہ سے اصولی طور پر کریڈٹ کارڈ کا استعمال ہی نا جائز ہے  اور اگر مقررہ مدت کے بعد سود کے ساتھ رقم واپس کرتا ہے تو اس کے ناجائز ہونے میں کسی قسم کا شبہ نہیں ہے، بہرحال  ادائیگی کی صورت کوئی بھی ہو اس سے قطع نظر نفسِ معاہدہ کے سودی ہونے کی وجہ سے کریڈٹ کارڈ بنوانا ہی ناجائز ہے، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں کریڈٹ کے ذریعے آن لائن چیزیں خریدنا  اور اس پر نفع لینا   بھی ناجائز اور حرام ہے۔

حدیث میں ہے:

"عن جابر، قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا، ومؤكله، وكاتبه، وشاهديه»، وقال: «هم سواء»."

(مشکاۃ المصابیح، ج:1،ص:250،ط:رحمانیہ)

فتاوٰی شامی میں ہے:

"وفي الأشباه ‌كل ‌قرض ‌جر ‌نفعا حرام.

قال ابن عابدين: (قوله ‌كل ‌قرض ‌جر ‌نفعا حرام) أي إذا كان مشروطا كما علم مما نقله عن البحر."

(5/ 166، كتاب البيوع، باب القرض، مطلب ‌كل ‌قرض ‌جر ‌نفعا حرام،ط: سعید)

البحر الرائق میں ہے:

"ولا يجوز قرض جر نفعا بأن أقرضه دراهم مكسرة بشرط رد صحيحة أو أقرضه طعاما في مكان بشرط رده في مكان آخر..وفي الخلاصة :القرض بالشرط حرام."

(6 / 133،كتاب البيع، باب المرابحة  والتولية ،فصل في بيان التصرف في المبيع والثمن قبل القبض ،ط:دار الكتاب الإسلامي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144601100126

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں