بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

کرکٹ کھیلنے کا حکم


سوال

کرکٹ کھیلنا کیسا ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ میں چند شرائط کے ساتھ   مختلف کھیلوں کی اجازت دی ہے، مثلاً اس میں دینی یا دنیوی نفع ہو، وہ کھیل فی نفسہ جائز ہو، اس میں مشغول ہو کر فرائض اور واجبات کا ترک لازم نہ آتا ہو اور دیگر غیر شرعی امور  (مثلاً ویڈیو تصاویر ، مرد وزن کا اختلاط   وغیرہ) کا ارتکاب نہ کیا جاتا ہو،  اگر کسی کھیل میں اس طرح کی شرائط پائی جائیں، تو وہ کھیل   فی نفسہ جائز   ہے،  لہٰذا مذکورہ بالا شرائط کی رعایت رکھتے ہوئے کرکٹ کھیلنا جائز ہے، اگر ان شرائط کی رعایت نہ رکھی جائے، تو کرکٹ کھیلنا جائز نہیں ہے۔

  تکملۃ فتح الملہم شرح صحیح المسلم میں ہے:

"فالضابط في هذا . . . أن اللهو المجرد الذي لا طائل تحته، وليس له غرض صحيح  مفيد في المعاش ولا المعاد حرام اور مكروه تحريماً، . . . وما كان فيه غرض  ومصلحة دينية أو دنيوية، فإن ورد النهي  عنه من الكتاب أو السنة . . . كان حراماً أو مكروهاً تحريماً، ... وأما مالم يرد فيه النهي عن الشارع وفيه فائدة ومصلحة للناس، فهو بالنظر الفقهي علي نوعين ، الأول ما شهدت التجربة بأن ضرره أعظم من نفعه ومفاسده أغلب علي منافعه، وأنه من اشتغل به الهاه عن ذكر الله  وحده وعن الصلاة والمساجد التحق ذلك بالمنهي عنه لاشتراك العلة فكان حراماً أو مكروهاً، والثاني ماليس كذالك  فهو أيضاً إن اشتغل به بنية التلهي والتلاعب فهو مكروه، وإن اشتغل به لتحصيل تلك المنفعة وبنية استجلاب المصلحة فهو مباح،  بل قد ير تقي إلى درجة الاستحباب أو أعظم منه ... وعلي هذا الأصل فالألعاب التي يقصد بها رياضة الأبدان أو الأذهان جائزة في نفسها مالم يشتمل علي معصية أخري، وما لم يؤد الانهماك فيها إلى الإخلال بواجب الإنسان في دينه و دنياه‘‘.

( کتاب الشعر، باب تحریم اللعب بالنردشیر،381/4، ط:  داراحیاء التراث العربی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506101160

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں