بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو الحجة 1445ھ 01 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

کرکٹ ٹورنامنٹ میں ہارنے والی ٹیم کا گراؤنڈ فیس کا زیادہ حصہ دینا


سوال

 ہمارے محلے کے چند ساتھیوں کی ایک ٹیم بن گئی جو کرکٹ کھیلتی ہے، اکثر طالب علم ہیں، نوکری پیشہ یا کاروباری تمام تر ذمہ داریوں کی ادائیگی بخوبی نباہ رہے ہیں اور دین کے حوالے سے جو معمولات ہیں ان پر بھی اپنی استطاعت کے مطابق عمل کررہے ہیں اور عبادات کا بھی اہتمام ہے، عرض یہ کرنا چاہتا ہوں کہ یہ کھیل ہمارے دینی معاملات یہ دنیوی معاملات میں کوئی خلل نہیں ڈال رہا،  یوں کہہ لیں ہم فقط اپنی جسمانی تندرستی کو برقرار رکھنے اور کچھ شوق کی وجہ سے کھیلتے ہیں۔

یہ کھیل ہم کراچی میں مختلف میدانوں میں کھیلتے ہیں اور ان میدانوں کی ایک فیس ہوتی ہے  جسے تمام کھیلنے والے مل کر برابر ادا کرتے ہیں۔ مگر ہمارے کچھ مقابلے ایسے بھی طے ہوتے ہیں کہ ہارنے والی ٹیم کو میدان کی فیس کا 70 فیصد ادا کرنا ہوگا اور جیتنے والا  30  فیصد ادا کرے گا، اس سے کھیلنے میں ایک کوشش اور محنت کا عنصر آجاتا ہے اور ہر کھلاڑی سنجیدگی سے محنت کرتا ہے۔ یعنی جو رقم ہم جمع کرتے ہیں وہ بطور انعام ہے جس میں جتنے اور ہارنے والی ٹیمیں برابر نہیں، پھر یہی رقم میدانوں کے مالکان کو بطور فیس ادا کرتے  ہیں مطلب  جیتنے والا ہارنے والے سے کم رقم ادا کرتا ہے۔

اب ہم سب میں اس کے متعلق دو آراء پائی جاتی ہیں: ایک کی نظر میں یہ جوا ہے اور دوسرے گروہ کی نظر میں یہ انعامی رقم کی طرح ہے!

جواب

  جواب سے پہلے تمہید کے طور پر یہ ذہن نشین رہے کہ   کسی بھی   کسی قسم کا کھیل جائز ہونے کے لیے مندرجہ ذیل شرائط کا پایا جانا ضروری ہے، ورنہ وہ کھیل لہو ولعب میں داخل ہونے کی وجہ سے شرعاً ناجائز ہوگا :

1۔۔  وہ کھیل بذاتِ خود جائز ہو، اس میں کوئی ناجائز   بات نہ ہو۔

2۔۔اس کھیل میں کوئی دینی یا دنیوی منفعت  ہو، مثلاً جسمانی  ورزش وغیرہ ، محض لہو لعب یا وقت گزاری کے لیے نہ کھیلا جائے۔

3۔۔ کھیل میں غیر شرعی امور کا ارتکاب نہ کیا جاتا  ہو۔

4۔۔کھیل میں اتنا غلو نہ کیا جائے  کہ جس سے شرعی فرائض میں کوتاہی یا غفلت پیدا ہو۔

  اگر ان شرائط کی رعایت رکھتے ہوئے میچ وغیرہ کھیلا جائے تو  اس کی اجازت ہے۔

نیز  اگر کرکٹ ٹورنامنٹ میں شروع ہی سے یہ شرط ہوکہ  ـ "ہارنے والی ٹیم کو میدان کی فیس کا 70 فیصد ادا کرنا ہوگا اور جیتنے والا 30 فیصد ادا کرے گا"  تو یہ جوا ہے، جو کہ جائز نہیں ہے، اسی طرح اگر  شروع سے یہ شرط ہو کہ  ہر ٹیم رقم جمع کرائی گی اور پھر اس رقم سے اخراجات نکالنے کے بعد  جو رقم بچے گی وہ جیتنے والی ٹیم کو ملے گی، تو یہ   بھی ناجائز ہے، یہ صورت  "قمار"  یعنی "جوے"  میں داخل ہے۔

البتہ  اگر شروع  میں یہ  طےنہ ہو، بلکہ تمام ٹیمیں اخراجات کی مد میں یہ رقم جمع کرائیں  اور اس رقم سے ٹورنامنٹ کے اخراجات پورے کیے جائیں، پھر جو رقم بچ جائے وہ  سب ٹیموں کی رضامندی سے کسی ایک ٹیم  (خواہ وہ جیتنے والی ٹیم ہو) کو دے دیں تو اس کی گنجائش ہوگی۔

 مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:

"عن ابن سیرین قال: کل شيء فیه قمار فهو من المیسر".

(4/483، کتاب البیوع  والاقضیہ، ط؛ مکتبہ رشد، ریاض)

أحکام القرآن  میں ہے:

"و لا خلاف بين أهل العلم في تحريم القمار وأن المخاطرة من القمار، قال ابن عباس: إن المخاطرة قمار، و إن أهل الجاهلية كانوا يخاطرون على المال، و الزوجة، و قد كان ذلك مباحاً إلى أن ورد تحريمه".

(أحکام القرآن للجصاص، 1/ 398،  باب تحریم المیسر، سورۃ البقرۃ، ط: دار الکتب العلمیۃ بیروت - لبنان)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: لأنه يصير قماراً)؛ لأن القمار من القمر الذي يزداد تارةً و ينقص أخرى، وسمي القمار قماراً؛ لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، و يجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص".

(6 / 403، کتاب الحظر والإباحة، ط ؛ سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144201201405

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں