بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

سی ایس ڈی سے قسطوں پر اشیاء خریدتے ہوئے جرمانہ کی شرط سے عملًا بچنا


سوال

 میرا تعلق پاکستان ائیر فورس سے ہے اور ہمیں قسطوں پر مختلف اشیاء مناسب قیمت پر اور بہتر سہولت سے خریدنے  کے لیے گورنمنٹ کی طرف سے سی ایس ڈی کی سہولت میسر ہے،  لیکن قسط کی ادائیگی کی تاخیر کی صورت میں 2 فیصد تک جرمانہ کی شرط کی وجہ  سے مفتیانِ کرام اس معاملے کو ناجائز قرار دیتے ہیں۔ اسی وجہ سے باوجود یہ کہ میری سروس 13 سال سے زائد ہو گئی ہے، لیکن میں نے ابھی تک سی ایس ڈی سے باوجود ضرورت ہونے  کے  کوئی چیز نہیں خریدی۔ اب سی ایس ڈی نے ادائیگی کی تاخیر روکنے  کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا ہے کہ مطلوبہ جو  چیز قسطوں پر خریدی جاتی ہے اس کی قسط از  خود مہینے کے شروع میں جس اکاؤنٹ میں ہماری تنخواہ آتی ہے، سے کاٹ لیتے ہیں۔ اور اس طرح جرمانے  کی شرط بھی عملاً  وقوع  پذیر ہونے کی نوبت نہیں آتی۔ اب اس صورت میں کیا اس بات کی گنجائش ہے کہ ہم سی ایس ڈی سے قسطوں پہ کوئی چیز خرید سکیں جب کہ مجبوری بھی ہو؟

جواب

واضح  رہے کہ  قسطوں پر خرید وفروخت میں  درج ذیل  شرائط کا لحاظ  اور رعایت کرنا ضروری ہے:

قسط  کی رقم متعین ہو، مدت متعین ہو، معاملہ متعین ہو کہ نقد کا معاملہ کیا جارہا ہے یا ادھار،  اور عقد کے وقت مجموعی قیمت مقرر ہو، اور کسی قسط کی ادائیگی میں تاخیر کی صورت میں اس  میں اضافہ  (جرمانہ)  وصول نہ کیا جائے، نہ ہی بوقتِ عقد اس کی شرط ہو۔

اگر عقد کے  وقت یہ شرط لگائی جائے کہ   قسط کی ادائیگی میں تاخیر ہوگی تو جرمانہ لگے، یہ شرط فاسد ہے، اس شرط کے ساتھ خریداری کا معاملہ بھی فاسد ہوجاتا ہے، اور اگر عقد  میں یہ شرط نہ لگائی جائے ، بلکہ قسط  کی ادائیگی میں تاخیر سے بچنے کے لیے دیگر جائز تدابیر اختیار کی جائیں تو یہ معاملہ جائز ہوگا۔

لہذا اگر  صورتِ  مسئولہ میں سی ایس ڈی  (Canteen Stores Department) نے  قسطوں پر چیزیں فروخت کرنے کے معاہدہ میں دیگر شرائط کی رعایت کے ساتھ ساتھ،    قسط کی ادائیگی میں تاخیر پر جرمانہ کی شرط کو  ختم کردیا ہے  اور   اس کے حل کے لیے  وہ آپ اکاؤنٹ میں آنے والی تنخواہ سے براہِ  راست  مہینہ کے شروع میں خود ہی رقم کاٹ لیتے ہیں تو  ان سے قسطوں پر اشیاء کی خریداری جائز ہوگی۔

لیکن اگر انہوں نے معاہدہ میں  یہ شرط ختم نہ  کی ہو،  البتہ ان  کے آپ کے  اکاؤنٹ میں آنے والی تنخواہ سے براہِ راست  مہینے  کے شروع میں خود  ہی رقم کاٹ لینے سے عملًا اس کی نوبت نہ آتی ہو تو  یہ معاملہ جائز نہیں ہوگا۔

آپ ان سے بات کرکے  ان شرائط کی رعایت کرتے ہوئے معاہدہ کرلیں ، اور  جس طرح عملًا جرمانہ کی نوبت نہیں آتی، اسی طرح معاہدہ میں بھی اس سے اجتناب کرلیں تو آپ کے لیے ان سے خریداری جائز ہوگی۔

 المبسوط للسرخسی میں ہے:

"وإذا عقد الْعَقْدَ عَلَى أَنَّهُ إلَى أَجَلِ كَذَا بِكَذَا وَبِالنَّقْدِ بِكَذَا أَوْ قَالَ إلَى شَهْرٍ بِكَذَا أَوْ إلَى شَهْرَيْنِ بِكَذَا فَهُوَ فَاسِدٌ؛ لِأَنَّهُ لَمْ يُعَاطِهِ عَلَى ثَمَنٍ مَعْلُومٍ وَلِنَهْيِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ  عَنْ شَرْطَيْنِ فِي بِيَعٍ، وَهَذَا هُوَ تَفْسِيرُ الشَّرْطَيْنِ فِي بِيَعٍ، وَمُطْلَقُ النَّهْيِ يُوجِبُ الْفَسَادَ فِي الْعُقُودِ الشَّرْعِيَّةِ، وَهَذَا إذَا افْتَرَقَا عَلَى هَذَا، فَإِنْ كَانَ يَتَرَاضَيَانِ بَيْنَهُمَا وَلَمْ يَتَفَرَّقَا حَتَّى قَاطَعَهُ عَلَى ثَمَنٍ مَعْلُومٍ، وَأَتَمَّا الْعَقْدَ عَلَيْهِ فَهُوَ جَائِزٌ؛ لِأَنَّهُمَا مَا افْتَرَقَا إلَّا بَعْدَ تَمَامِ شَرَطِ صِحَّةِ الْعَقْدِ".

(13 /9، باب البیوع الفاسدہ، ط: غفاریہ)

         شرح المجلہ میں ہے:

"البیع مع تأجیل الثمن و تقسیطه صحیح ...  یلزم أن تکون المدة معلومةً في البیع بالتأجیل والتقسیط".

 (2/166، المادۃ 245، 246، ط: رشیدیہ)

البحر الرائق میں ہے: 

"لِأَنَّ لِلْأَجَلِ شَبَهًا بِالْمَبِيعِ أَلَا تَرَى أَنَّهُ يُزَادُ فِي الثَّمَنِ لِأَجْلِ الْأَجَلِ، وَالشُّبْهَةُ فِي هَذَا مُلْحَقَةٌ بِالْحَقِيقَةِ".

 (6/114، باب المرابحۃ والتولیہ، ط:سعید) 

 فتاوی شامی میں ہے:

"(وَ) لَا (بَيْعٌ بِشَرْطٍ) عَطْفٌ عَلَى إلَى النَّيْرُوزِ يَعْنِي الْأَصْلُ الْجَامِعُ فِي فَسَادِ الْعَقْدِ بِسَبَبِ شَرْطٍ(لَايَقْتَضِيهِ الْعَقْدُ وَلَا يُلَائِمُهُ وَفِيهِ نَفْعٌ لِأَحَدِهِمَا أَوْ) فِيهِ نَفْعٌ (لِمَبِيعٍ) هُوَ (مِنْ أَهْلِ الِاسْتِحْقَاقِ) لِلنَّفْعِ بِأَنْ يَكُونَ آدَمِيًّا، فَلَوْ لَمْ يَكُنْ  كَشَرْطِ أَنْ لَا يَرْكَبَ الدَّابَّةَ الْمَبِيعَةَ لَمْ يَكُنْ مُفْسِدًا كَمَا سَيَجِيءُ (وَلَمْ يَجْرِ الْعُرْفُ بِهِ وَ) لَمْ (يَرِدْ الشَّرْعُ بِجَوَازِهِ)".

  (5/84، 85، مطلب فی البیع بشرط فاسد، ط : سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144207201513

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں