واضح رہے کہ کسی بھی کرنسی کو خرید کر رکھنا اور پھر اس کے ریٹ مہنگے ہوجانے کے بعد اسے بیچ کر نفع کمانا حلال ہے، البتہ کرنسی کے بدلے کرنسی کی جو بیع ہوتی ہے ، اس کی حیثیت بیع صرف کی ہے؛ اس لیے اس طرح کی بیع میں ادھار جائز نہیں ہے، بلکہ ضروری ہے کہ سودا نقد کیا جائے اور مجلسِ عقد میں ہاتھ کے ہاتھ ہی جانبین سے عوضین پر قبضہ بھی ہوجائے ، ورنہ بیع فاسد ہوجائے گی؛ لہٰذا پہلی مرتبہ جب کسی ملک کی کرنسی خریدی گئی اگر اس وقت سودا نقد ہوا، پھر وہ کرنسی اپنے پاس رکھی رہی، اور کچھ عرصے بعد اس کی قیمت بڑھ گئی تو پھر دوسرا سودا بھی نقد کرکے اسے فروخت کیا گیا تو یہ جائز ہے۔ اور اگر ایک ہی ملک کی کرنسی کا اسی ملک کی کرنسی کے عوض معاملہ کیا جائے تو سودا نقد ہونے کے ساتھ ساتھ جانبین سے برابری بھی شرط ہوگی، ورنہ سود ہوجائے گا؛ لہذا ایسے تمام سودے ناجائز ہوں گے جن میں کرنسی کی خریدوفروخت ادھار ہوتی ہے ، یا نقد ہوتی ہے ، مگر عقد کے دونوں فریق یا کوئی ایک فریق اپنے حق پر قبضہ نہیں کرتا ۔الحاصل تقابض نہ پائےجانے کی وجہ سے ایسے سودے فاسد ہوں گے اور نفع حلال نہ ہوگا۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
'' (هو) لغةً: الزيادة. وشرعاً: (بيع الثمن بالثمن) أي ما خلق للثمنية ومنه المصوغ (جنساً بجنس أو بغير جنس) كذهب بفضة، (ويشترط) عدم التأجيل والخيار و (التماثل) أي التساوي وزناً، (والتقابض) بالبراجم لا بالتخلية (قبل الافتراق)، وهو شرط بقائه صحيحاً على الصحيح، (إن اتحد جنساً وإن) وصلية (اختلفا جودةً وصياغةً) ؛ لما مر في الربا (وإلا) بأن لم يتجانسا (شرط التقابض) لحرمة النساء، (فلو باع) النقدين (أحدهما بالآخر جزافاً أو بفضل وتقابضا فيه) أي المجلس (صح)''۔
(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 257)، باب الصرف)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144211200926
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن