ہمارا ایک ریسٹورنٹ ہے ،جس میں ہم اپنے کسٹمر سے حکومت پاکستان کے ادارے سندھ ریوینیو بورڈ کے کہنے پر ٹیکس وصول کرتے ہیں(وہ ٹیکس کھانا کھانے والوں کا ٹیکس ہے ، جو ہم ان سے وصول کر کے حکومت کو ادا کرتے ہیں)ہمیں معلوم نہیں کہ حکومت یہ ٹیکس کیوں وصول کرتی ہے !لیکن ہمارے اوپر ضروری ہے کہ ہم ٹیکس وصول کرکے حکومت کو ادا کریں ، جس کی مالیت کیش پر پندرہ فیصد اور بینک کارڈ پر آٹھ فیصد ہے ، یہ فیصد گورنمنٹ کی مقرر کردہ ہے۔
۱)کیا یہ ٹیکس وصول کر کے ہم اپنے ادارے کے دیگر اخراجات میں استعمال کرسکتے ہیں ؟ یا حکومت کو ادائیگی لازم ہے ؟
۲)نیز بعض دفعہ ہمارے کسٹمر ہم سے اس بات کا مطالبہ کرتے ہیں کہ ہم ٹیکس نہیں دیں گے ، اس صورت میں ہمیں ٹیکس کی رقم کے بقدر رقم کا ڈسکاؤنٹ دینا پڑتا ہے ، اس صورت میں کیا حکم ہوگا ؟
۱)صورتِ مسئولہ میں حکومتی قانون کے مطابق ریسٹورنٹ کی انتظامیہ جس گاہک سے حکومتی تعیین کے موافق پندرہ فیصد ، یاآٹھ فیصد ٹیکس وصول کرے وہ ٹیکس حکومت کو ادا کرنا لازم ہے ، کسٹمر زسے ٹیکس کی مد میں لی گئی رقم کا ریسٹورنٹ کے دیگر کسی مصرف میں استعمال کرنا ، شرعا جائز نہیں ہے ۔
۲) اگر کسٹمر الگ سے طے شدہ متعین رقم ٹیکس کی مد میں ادا نہ کرے تو ریسٹورنٹ ، حکومت کو اس کسٹمر کا ٹیکس ادا کرنے کا پابند نہیں ہوگا۔البتہ ریسٹورنٹ انتظامیہ کا ٹیکس کی رقم حکومت کو ادا کرنے کی وجہ سے ٹیکس کی رقم کے بقدر گاہک کو ڈسکاؤنٹ دینا انتظامیہ کی اپنی رضا پر ہے ، چاہے تو ڈسکاؤنٹ دے ورنہ کسٹمر کو ٹیکس کے ادا کرنے کا پابند کرسکتی ہے ، اور اس مقصد کے لیے باقاعدہ لکھ کر اعلان آویزاں کرسکتی ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے:
" إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا." (سورۃ النساء:58)
ترجمہ:بے شک اللہ تعالی تم کو اس بات کا حکم دیتے ہیں کہ اہل حقوق کو ان کے حقوق پہنچادیاکرو ۔(از بیان القران)
مسند امام احمد میں ہے :
"وعن أبي أمامة رضی اللہ عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يطبع المؤمن على الخلال كلها إلا الخيانة والكذب."
(تتمة مسند الأنصار، حدیث أبي أمامة الباھلي، ج: 36، ص: 504، ط: مؤسسة الرسالة)
ترجمہ:’’ مومن ہر خصلت پر ڈھل سکتا ہے سوائے خیانت اور جھوٹ کے۔‘‘
درر الحكام فی شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:
"كل يتصرف في ملكه المستقل كيفما شاء أي أنه يتصرف كما يريد باختياره أي لا يجوز منعه من التصرف من قبل أي أحد هذا إذا لم يكن في ذلك ضرر فاحش للغير."
(الباب الثالث في بيان المسائل المتعلقة بالحيطان والجيران، الفصل الأول في بيان بعض القواعد المتعلقة بأحكام الأملاك، ج:3، ص:201، ط: دار الجيل)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144610100480
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن