بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

نابالغہ کا دادا نے نکاح کروایا ہو،تو کیا بلوغت کے بعد عدالت سے خلع کے ذریعہ نکاح ختم کروایا جاسکتا ہے؟


سوال

 ایک نابالغ لڑکی کا نکاح اس کے داد انے   نابالغ لڑکے  سے اس کے والد کی موجودگی میں کردیا، نکاح بھی وٹہ سٹہ کی صورت میں ہوا کہ لڑکی کے چچا کی شادی لڑکے کی بہن سے ہوئی۔ نکاح کے بعد دونوں فیملی میں شدید اختلافات پیدا ہوگئے۔ جب لڑکی بالغ ہوئی تو اس نے اس نکاح کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ لڑکے کے خاندان نے طلاق دینے سے انکار کیا، لڑکی کے والد نے بار بار طلاق کا مطالبہ کیا۔ لڑکے کے خاندان کی ضد کی وجہ سے معاملہ مزید پیچیدہ ہوگیا۔پہلے تو وہ لوگ چاہتے تھے کہ شادی ہو، اور ہمارا بدلہ پورا ہو کیوں کہ وہ لوگ کئی بار کہہ چکے تھے کہ بھلے ایک رات کے لئے شادی ہو، لیکن وٹہ سٹہ پورا ہو، لیکن لڑکی والوں کے انکار کے بعد ضد میں آگئے۔پھر نہ شادی کرنا چاہتے تھے ،اور نہ طلاق دینا چاھتے تھے۔ جب معاملہ بات چیت سے حل نہ ہوسکا تو مجبوراً لڑکی والوں نے عدالت سے رجوع کیا۔ عدالت نے لڑکے کو متعدد بار طلب کیا، لیکن وہ یا اس کا وکیل حاضر نہ ہوا، چناں چہ عدالت نے یکطرفہ خلع کا فیصلہ دے دیا،اب سوال یہ ہے کہ خلع ہوگیا؟کیا لڑکی ساری زندگی شادی نہیں کر سکتی؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر نابالغ لڑکی کا نکاح اس کے داد انے  والد کی رضامندی سے کرایا ہو،  یا دادا نے جب نکاح کرایا تو والد نے منع نہیں  کیا ہو،اور اب اختلافات کی بنا پر  لڑکا نہ رخصتی کرانا چاہتا ہو اور نہ ہی منکوحہ  کو طلاق دیتاہے  تو ایسی صورت میں لڑکی کو چاہیے کہ عدالت میں شرعی گواہوں کے ذریعہ یہ بات ثابت کرکے عدالت سے تنسیخ نکاح کی  ڈگری حاصل کرلے،مذکورہ طریقہ سے عدالتی تنسیخ کے بعد لڑکی کے لیے دوسری جگہ نکاح کرنا جائز ہوگا۔

باقی  خلع واقع ہونے کے لیے  شوہر کی رضامندی شرعاً ضروری ہوتی  ہے،شوہر کی رضامندی  کے بغیر یکطرفہ طور پر خلع کی ڈگری حاصل کرنے سے شرعاً خلع معتبر نہیں ہوتا۔نیز نکاح کے بعد بیوی کو لٹکائے رکھنا نہایت قبیح عمل ہے،  لہذا شوہر کی جانب سے اپنی منکوحہ  کو  رخصت کرکے اپنےپاس نہ لے جانا، اور اسے طلاق دے کر آزاد بھی نہ کرنا ظلم ہوگا، لہذا یا تو عزت کے ساتھ بیوی کو رخصت  کراکر اپنے گھر لے جائے، اور بیوی کے تمام حقوق ادا کرے، اور اگر رخصتی نہیں کرانا چاہتا  ہو، تو لٹکائے رکھنا جائز  نہیں ہوگا۔

تفسیر مظہری میں ہے:

"قوله تعالى فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ ‌سَرِّحُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ ولهن اى للنساء على الأزواج حقوق مثل الذي عَلَيْهِن للازواج فى الوجوب واستحقاق المطالبة لا فى الجنس بالمعروف بكل ما يعرف فى الشرع من أداء حقوق النكاح وحسن الصحبة فلا يجوز لاحد ان يقصد ضرار الاخر بل ينبغى ان يريدوا إصلاحا."

(سورۃ البقرۃ: آیة228، ج:1، ص:299، ط:مكتبة الرشدية)

بدائع الصنائع  میں ہے:

"و أما ركنه: فهو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض، فلاتقع  الفرقة، و لايستحق العوض بدون القبول."

(كتاب الطلاق، ج:3، ص:145، ط: دار الکتب العلمیة)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وللولي) الآتي بيانه (إنكاح الصغير والصغيرة) جبرا (ولو ثيبا) كمعتوه ومجنون شهرا (ولزم النكاح ولو بغبن فاحش) بنقص مهرها وزيادة مهره (أو) زوجها (بغير كفء إن كان الولي) المزوج بنفسه بغبن (أبا أو جدا) وكذا المولى وابن المجنونة (لم يعرف منهما سوء الاختيار).

(قوله ولزم النكاح) أي بلا توقف على إجازة أحد وبلا ثبوت خيار في تزويج الأب والجد والمولى وكذا الابن على ما يأتي."

(کتاب النکاح، ج:3، ص:66، ط:سعید)

وفیه ايضاً:

"فقالت: خلعت نفسي بكذا، ففي ظاهر الرواية لا يتم الخلع ما لم يقبل بعده." 

(كتاب الطلاق، باب الخلع، ج:3، ص:440، ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144605102344

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں