محترم مفتی صاحب میرا سوال یہ ہے کہ کیا داڑھی کی شرعی مقدار کوئی نہیں ہے؟ اور گال کے بال کاٹنا کیسا ہے؟ اور پورے بدن کے بال لیزر کروانا یا ویکس کروانا کیسا ہے؟
واضح رہے کہ کنپٹی سے متصل نیچے کی جانب جبڑے کی جو سخت ہڈی ہے، وہاں سے لے کر تھوڑی کی ہڈی تک جو بال انسان کے چہرے پر اُگتے ہیں، وہ داڑھی کہلاتے ہیں، نیز نچلے ہونٹ کے نیچے جو بال اُگتے ہیں جنہیں عرف میں "داڑھی بچہ" کہا جاتا ہے، وہ بھی داڑھی میں شامل ہیں، اور داڑھی کی شرعی مقدار ایک مشت (مٹھی) ہے، لہٰذا ان بالوں کو منڈانا یا ایک مشت سے کم کرانا جائز نہیں ہے، اور چہرے کے تینوں اطراف کم از کم ایک مشت داڑھی رکھنا واجب ہے تاہم جو بال رخساروں پر اُگتے ہیں، وہ داڑھی کی تعریف میں شامل نہیں، لہٰذا اُنھیں کاٹنا یا صاف کرنا جائز ہے۔ باقی داڑھی کے علاوہ پورے بدن کے بال لیزر یا ویکس وغیرہ سے صاف کروانا مردوں کے لیے جائز ہے، مگر بہتر نہیں ہے۔ نیز یہ بھی واضح رہے کہ اس مقصد کے لیے اپنا ستر کسی دوسرے کے سامنے کھولنا جائز نہیں ہے۔
صحیح بخاری میں ہے:
"حدثنا محمد بن منهال : حدثنا يزيد بن زريع: حدثنا عمر بن محمد بن زيد، عن نافع، عن ابن عمر عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «خالفوا المشركين: وفروا اللحى وأحفوا الشوارب، وكان ابن عمر إذا حج أو اعتمر قبض على لحيته، فما فضل أخذه»."
(كتاب اللباس، باب تقليم الأظفار، ٧/ ١٦٠، ط: دار طوق النجاة)
عمدة القاري شرح صحيح البخاری میں ہے:
''حدثنا عبد الله بن رجاء حدثنا إسرائيل عن أبي إسحاق عن وهب أبي جحيفة السوائي قال: رأيت النبي صلى الله عليه وسلم ورأيت بياضاً من تحت شفته السفلى العنفقة ... قوله: (العنفقة) ، بالجر على أنه بدل من: الشفة، ويجوز بالنصب على أن يكون بدلاً من قوله: (بياضاً) . قال ابن سيده في (المخصص) : هي ما بين الذقن وطرف الشفة السفلى، كأن عليها شعر أو لم يكن، وقيل: هو ما كان نبت على الشفة السفلى من الشعر، وقال القزاز: هي تلك الهمزة التي بين الشفة السفلى والذقن، وقال الخليل: هي الشعيرات بينهما، ولذلك يقولون في التحلية: نقي العنفقة، وقال أبو بكر: العنفقة خفة الشيء وقلته، ومنه اشتقاق: العنفقة، فدل هذا على أن العنفقة الشعر، وأنه سمي بذلك لقلته وخفته، وفي هذا الحديث بين موضع البياض والشمط ... واللحية تشمل العنفقة وغيرها''.
(باب صفة النبي صلى الله عليه وسلم، ١٦/ ١٠٤، ط: دار إحياء التراث العربي)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"(قوله: جميع اللحية) بكسر اللام وفتحها نهر، وظاهر كلامهم أن المراد بها الشعر النابت على الخدين من عذار وعارض والذقن.
وفي شرح الإرشاد: اللحية الشعر النابت بمجتمع الخدين والعارض ما بينهما وبين العذار وهو القدر المحاذي للأذن، يتصل من الأعلى بالصدغ ومن الأسفل بالعارض، بحر."
(کتاب الطهارۃ، ١/ ١٠٠، ط: سعید)
وفيه أيضاً:
"وفي حلق شعر الصدر والظهر ترك الأدب، كذا في القنية".
(کتاب الحظر و الإباحة، ٦/ ٤٠٧، ط: سعید)
فتاویٰ رشیدیہ میں ہے:
"(سوال): سینہ اور پیٹ پر کے بال اور رخساروں کے بال منڈوانا درست ہے یا نہیں؟
(جواب): سینہ اور شکم کے بال منڈوانا درست ہیں اور رخسار کے بال دفع کرنا ترکِ اولیٰ ہے۔"
(حرمت اور جواز کے مسائل، سینہ اور پیٹ کے بال منڈوانا، ص: ۵۹۳، ط: عالمی مجلس تحفظِ اسلام)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144607101512
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن