بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1446ھ 18 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

ڈیری فارم کی بھینسوں کی زکات دینے کا طریقہ


سوال

ڈیری فارم میں بھینسوں کی زکات کس طرح ادا کی جائے گی؟لوگ کہتے ہیں کہ فارم کی بھینسوں  پر زکات نہیں ہوتی بلکہ ان کی کمائی پر زکات ہوگی۔

تو سوال یہ ہے کے ڈیری فارم والے ہر مہینے یا سال میں جو کماتے ہیں وہ اس سے مزید بھینسیں خرید لیتے ہیں،جس بنا پر کمائی ان کے ہاتھ میں نہیں رہتی،جب کہ ان کا کیپیٹل بڑھ رہا ہوتا ہے۔

جواب

جانوروں میں زکات واجب ہونے کے لیےچند شرائط ہیں،ان میں سے ایک شرط یہ ہے کہ وہ جانور سائمہ ہوں یعنی پورا سال یا سال کا اکثر حصہ گھر سے باہر چرتےہوں ،ان کو گھر میں چار انہ کھلایا جاتا ہو ،لہذا اگر جانور سائمہ نہ ہو تو ان جانوروں پر زکات واجب نہیں ہوگی، اگرچہ ان کی تعداد بہت زیادہ ہو۔ ڈیری فارم کی بھینسیں چونکہ  سائمہ نہیں ہیں لہذا ان  پر زکات واجب نہیں ہے، البتہ ڈیری فارم سے حاصل ہونے والی کمائی اگر نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت )کے برابر یا اس سے زیادہ ہو یا دیگر اموالِ زکاۃ کے ساتھ مل کر نصاب  کے برابر یا اس سے زیادہ ہو یا پہلے سے صاحبِ نصاب ہو تو سال گزرنے کی صورت میں اس مال میں سے ڈھائی فی صد زکات واجب ہوگی۔ البتہ سال پوراہونے سے پہلےجو آمدنی خرچ ہو جائےاس پر زکات واجب نہیں ہوگی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"باب السائمة (هي) الراعية، وشرعاً (المكتفية بالرعي) المباح، ذكره الشمني (في أكثر العام لقصد الدر والنسل) ذكره الزيلعي، وزاد في المحيط (والزيادة والسمن) ليعم الذكور فقط، لكن في البدائع لو أسامها للحم فلا زكاة فيها كما لو أسامها للحمل والركوب ولو للتجارة ففيها زكاة التجارة ولعلهم تركوا ذلك لتصريحهم بالحكمين (فلو علفها نصفه لاتكون سائمةً) فلا زكاة فيها للشك في الموجب.

 (قوله: ولعلهم تركوا ذلك) أي ترك أصحاب المتون من تعريف السائمة ما زاده المصنف تبعاً للزيلعي والمحيط؛ لتصريحهم أي تصريح التاركين لذلك بالحكمين: أي بحكم ما نوى به التجارة من العروض الشاملة للحيوانات وبحكم المسامة للحمل والركوب، وهو وجوب زكاة التجارة في الأول، وعدمه في الثاني، فلايرد على تعريفهم بأنها المكتفية بالرعي في أكثر العام أنه تعريف بالأعم، أفاده في البحر. وحاصله: أن القيدين المذكورين في الزيلعي والمحيط ملحوظان في التعريف المذكور بقرينة التصريح المزبور، فلايكون تعريفاً بالأعم، على أن التعريف بالأعم إنما لايصح على رأي المتأخرين من علماء الميزان، وإلا فالمتقدمون وأهل اللغة على جوازه، وبه اندفع قول النهر: إن هذا غير دافع؛ إذ التعريف بالأعم لايصح ولاينفع فيه ذكر الحكمين بعده اهـ تأمل."

(کتاب الزکاۃ، باب السائمة، ج: 2، ص:275، 276، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144609101428

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں