بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

دم حدودِ حرم میں کیوں دینا ضروری ہے؟


سوال

ایک صاحب نے سوال کیا کہ حج میں دمِ شکر اور دمِ جنایت حدودِ حرم مکی میں ذبح کرنا کیوں واجب ہے؟ اور اپنے  وطن میں بھی ذبح کرسکتے  ہیں، اور یہاں  غریب لوگ بھی زیادہ ہیں، حال آں کہ مکہ شریفہ  میں  یہ قربانی بعض اوقات ضائع ہوتی ہے!

جواب

حجاجِ کرام کے اوپر جو دم لازم ہوتے ہیں اُن کے متعلق باری تعالیٰ کا واضح ارشاد ہے "{هَدْياً بَالِغَ الْكَعْبَةِ}"  اس آیت  میں  دموں سے متعلق ہدایت دی گئی ہے کہ اُن  کو حدودِ حرم  میں ذبح کیا جائے، اور  اللہ تعالیٰ  اپنے احکام کی حکمتوں سے  بخوبی واقف ہیں،  بندوں کے لیے بندگی کا حکم ہے اور بندگی کا تقاضا یہ ہے کہ رب کی ہر بات کو دل کی گہرائی سے قبول کیا جائے اور احکامِ خداوندی میں    اپنی عقل کی دخل اندازی سے گریز کیا جائے۔

لیکن علماء کرام نے اللہ تعالیٰ کے احکام کی حکمتیں بھی بیان فرمائی ہیں، چنانچہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ جو جانور حج کے موقع پر ذبح کیے جاتے ہیں اُن کا حدود حرم میں ذبح کیے جانے کے حکم کی  حکمت  حضرت ابراہیم علیہ السلام سے مشابہت اختیار کرنا ہے ؛ کیوں کہ انہوں   نے اپنے بیٹے کو ذبح کے لیے حرم میں ہی  لٹایا  تھا، پھر اللہ تعالیٰ نے  اُن کی جگہ ایک مینڈھے کو بھیج دیا تھا، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس فعل کی مشابہت چونکہ اُسی مقدس  زمین پر ممکن ہے اِس لیے دموں کو حدودِ حرم میں ہی ذبح کرنے کا حکم ہے۔

باقی آپ نے سوال میں قربانی کے ضائع ہونے سے متعلق جو بات لکھی ہے یہ بات بھی درست نہیں، اگر کوئی آدمی اپنے مقامی علاقہ میں کسی فقیر اور محتاج کی مدد کرنا چاہتا ہے تو زکوۃ اور دیگر صدقاتِ واجبہ اور نافلہ سے کر سکتا ہے، بہرحال!  دمِ شکر اور دمِ جنایت کو حدودِ حرم میں ہی ذبح کیا جائے گا۔

«حجة الله البالغة» (2/ 94):

«والسر في الهدى التشبه بفعل سيدنا إبراهيم عليه السلام فيما قصد من ذبح ولده في ذلك المكان طاعة لربه وتوجها إليه، والتذكر لنعمة الله به وبأبيهم إسمعيل عليه السلام وفعل مثل هذا الفعل في هذا الوقت، والزمان ينبه النفس أي تنبه.

إنما وجب على المتمتع والقارن شكرا لنعمة الله حيث وضع عنهم إصر الجاهلية في تلك المسألة»

«تفسير الطبري = جامع البيان ط دار التربية والتراث» (13/ 168):

«قال ابن زيد في قوله: "ويضع عنهم ‌إصرهم"، قال: ‌إصرهم الذي جعله عليهم.

 

قال أبو جعفر: وأولى الأقوال في ذلك بالصواب أن يقال: إنّ "الإصر" هو العهد= وقد بينا ذلك بشواهده في موضعٍ غير هذا بما فيه الكفاية = وأن معنى الكلام: ويضع النبيُّ الأميُّ العهدَ الذي كان الله أخذ على بني إسرائيل، من إقامة التوراة والعملِ بما فيها من الأعمال الشديدة، كقطع الجلد من البول، وتحريم الغنائم، ونحو ذلك من الأعمال التي كانت عليهم مفروضةً، فنسخها حُكْم القرآن»

منحة السلوك في شرح تحفة الملوك (ص: 334)

ويختص جميع دم يجب على الحاج: بالحرم، لقوله تعالى: {هَدْياً بَالِغَ الْكَعْبَةِ} [المائدة: 95].

تفسير مقاتل بن سليمان (1/ 505)

هَدْياً بالِغَ الْكَعْبَةِ يعني ينحر بمكة۔

تفسير السعدي = تيسير الكريم الرحمن (ص: 244)

وذلك الهدي لا بد أن يكون {هَدْيًا بَالِغَ الْكَعْبَةِ} أي: يذبح في الحرم.

«اللباب في علوم الكتاب» (3/ 371):

 

«قال أبو حنيفة: لا يَجُوزُ إِراقَهُ دم الإحصار إلَاّ في الحرم»

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144207201294

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں