بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو الحجة 1445ھ 01 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

درختوں پر لگے پھل کی فصل فروخت کرنے کا حکم


سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے گاؤں میں آڑو کے باغ کو خریدا جاتا ہے،  جبکہ اس باغ میں مختلف نمبر والے آڑو کے درخت ہوتے ہیں۔

مثلا کچھ درخت ایسے ہوتے ہیں جنہیں   پہلے نمبر والا کہا جاتا ہے،  اور کچھ دوسرے، تیسرے ، چوتھےنمبر والے کہلاتے ہیں۔ پہلے نمبر والے درختوں کے پھل پہلے پک جاتے ہیں،  اسی طرح دوسرے  نمبر والے اس کے بعد پک جاتے ہیں یوں پھلوں کے پکنے کی ترتیب جاری رہتی ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ ایسے مختلف نمبر والے آڑو کے درختوں پر مشتمل باغ کو پہلے والے نمبر والے درختوں کے ضمن میں ایک ساتھ خریدنا بیچنا شرعا جائز ہے یا نہیں؟ جبکہ بیع کے وقت میں بعد والے نمبر کے پھل پکے نہیں ہوتے ۔ صرف پہلے نمبر یا دوسرے نمبر والے آڑو کے پھل پکے ہوتے ہیں،  تو جو  پھل پکے نہیں ہوں، ان کی خرید و فروخت کرنا شرعا کیسا ہے ؟

نیز اگر یہ  بات بھی بیان کر دی جائے کہ درختوں کے اوپر پھلوں کی خرید وفروخت کب جائز ہو جاتی ہے۔ بینوا توجروا۔

وضاحت: مذکورہ بالا سودا درختوں  پر پھل لگنے کے بعد ہوتا ہے، درختوں یا زمین فروخت نہیں کی جاتی، بلکہ فصل  اس طور پر فروخت کی جاتی ہے کہ سودے کے بعد پھلوں کی دیکھ بھال خریدار کے ذمہ ہوتی ہے، اور پھل مکمل تیار ہونے تک درختوں پر لگے رہتے ہیں۔

پہلے نمبر دوسرے، تیسرے  نمبر کا مطلب پھل پکنے کے اعتبار سے ترتیب بتانا ہے، یعنی جس وقت سودا ہوتا ہے، اس وقت بعض پھل بڑے ہوتے ہیں، جبکہ بعض چھوٹے، اور بعض اس سے چھوٹے ہوتے ہیں۔

جواب

واضح رہے کہ درختوں پر لگے پھلوں کی خرید وفروخت کے  جائز ہونے کے لیے شرعا ضروری یہ ہے کہ درخت پر پھل ظاہر ہوچکے ہوں، اگرچہ  پک کر تیار نہ ہوئے ہوں،  فروخت کنندہ کی جانب سے فوری پھل توڑنے کی شرط لگائی گئی ہو، یا فروخت کنندہ  و خریدار کی جانب سے  پھل کے کاٹنے یا نا کاٹنے سے متعلق کوئی شرط نہ رکھی گئی ہو،  بلکہ مطلق سودا کیا گیا ہو،  تو اس صورت میں بیع جائز ہوتی ہے،  البتہ سودا کرتے وقت پھل پکنے تک درختوں پر چھوڑے رکھنے  شرط لگانا  شرط فاسد ہے، ایسی شرط کے ساتھ سودا کرناشرعاً جائز  نہیں ہوتا۔

نیز  خرید و فروخت میں مبیع (فروخت کردہ چیز) کا معلوم ہونا اور اس کی  مقدار متعین کرنا اور  سودے کے وقت حوالے کرنے پر  بائع کی قدرت کا ہونا بھی  ضروری  ہوتاہے، پس اگر مبیع متعین نہ ہو یا اس کی مقدار متعین نہ ہو یا اس کے حوالہ کرنے پر قدرت نہ ہوتو ایسی خرید وفروخت  شرعا جائز نہیں  ہوتی۔

صورتِ مسئولہ میں درختوں پر لگے پھلوں کے سودے کے حوالے سے سائل کی جانب سے جو معلومات فراہم کی گئی ہیں اس کی روشنی میں مذکورہ سودا کرنا بچند وجوہ جائز نہیں ہوگا:

1:مذکورہ معاملہ میں مبیع ( پھلوں) کی مقدار متعین نہیں ہے، کیوں کہ  سودا ہونے کے بعد سیزن کے دوران مستقبل میں آنے والے مزید پھل کی مقدار معلوم نہ ہونے کی وجہ سے  مبیع مجہول ہے۔

2۔پھل پکنے تک درختوں پر پھل چھوڑے رکھنے کی شرط شرط فاسد ہے۔

3۔کچے پھل توڑ کر لینے پر  خریدار  راضی نہیں، جس کی وجہ سے سودے کے وقت  پھلوں کی سپردگی بائع کے لیے ممکن نہیں۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وفي بيع الزرع والرطبة والحشيش بيع الثمار قبل الظهور لا يصح اتفاقا فإن باعها بعد أن تصير منتفعا بها يصح وإن باعها قبل أن تصير منتفعا بها بأن لم تصلح لتناول بني آدم وعلف الدواب فالصحيح أنه يصح وعلى المشتري قطعها في الحال هذا إذا باع مطلقا أو بشرط القطع فإن باع بشرط الترك فسد البيع وهذا إذا لم يتناه عظمها فإن تناهى عظمها فباعها مطلقا أو بشرط القطع صح وإن باع بشرط الترك لم يصح قياسا عند أبي حنيفة وأبي يوسف - رحمهما الله تعالى - وصح استحسانا عند محمد - رحمه الله تعالى - وفي الأسرار أن الفتوى على قوله كذا في الكافي وفي التحفة الصحيح قولهما كذا في النهر الفائق."

(كتاب البيوع، الباب التاسع فيما يجوز بيعه وما لا يجوز، الفصل الثاني في بيع الثمار وإنزال الكروم والأوراق والمبطخة، ٣ / ١٠٦، ط: دار الفكر)

رد المحتار علي الدر المختار میں ہے:

"(ومن باع ثمرةً بارزةً) أما قبل الظهور فلايصح اتفاقًا. (ظهر صلاحها أو لا صح) في الأصح.

(قوله: أما قبل الظهور) أشار إلى أن البروز بمعنى الظهور، والمراد به انفراد الزهر عنها وانعقادها ثمرة وإن صغرت.

(قوله: ظهر صلاحها أو لا) قال: في الفتح لا خلاف في عدم جواز بيع الثمار قبل أن تظهر ولا في عدم جوازه بعد الظهور قبل بدو الصلاح، بشرط الترك ولا في جوازه قبل بدو الصلاح بشرط القطع فيما ينتفع به، ولا في الجواز بعد بدو الصلاح، لكن بدو الصلاح عندنا أن تؤمن العاهة والفساد، ... (قوله: لا يصح في ظاهر المذهب) قال: في الفتح: ولو اشتراها مطلقا أي بلا شرط قطع أو ترك فأثمرت ثمرا آخر قبل القبض فسد البيع؛ لأنه لا يمكنه تسليم المبيع لتعذر التمييز فأشبه هلاكه قبل التسليم، ولو أثمرت بعد القبض يشتركان فيه للاختلاط، والقول قول المشتري في مقداره مع يمينه؛ لأنه في يده وكذا في بيع الباذنجان والبطيخ إذا حدث بعد القبض خروج بعضها اشتركا كما ذكرنا. اهـ.

ومقتضاه أنها لو أثمرت بعد القبض يصح البيع في الموجود وقت البيع، فإطلاق المصنف تبعا للزيلعي محمول على ما إذا باع الموجود والمعدوم كما يفيده ما يأتي عن الحلواني، ما ذكره في الفتح من التفصيل محمول على ما إذا باع الموجود فقط، وعلى هذا فقول الفتح عقب ما قدمناه عنه، وكان الحلواني يفتي بجوازه في الكل إلخ، لا يناسب التفصيل الذي ذكره؛ لأنه لا وجه لجواز البيع في الكل إذا وقع البيع على الموجود فقط فاغتنم هذا التحرير."

(كتاب البيوع، مطلب في بيع الثمر والزرع والشجر مقصودا، ٤ / ٥٥٤ - ٥٥٥، ط: دار الفكر)

حاشیۃ  ابن  عابدین  میں ہے:

"وشرط المعقود عليه ستة: كونه موجودا مالا متقوما مملوكا في نفسه، وكون الملك للبائع فيما يبيعه لنفسه، وكونه مقدور التسليم فلم ينعقد بيع المعدوم وما له خطر العدم..وأما الثالث: وهو شرائط الصحة فخمسة وعشرون: منها عامة ومنها خاصة، فالعامة لكل بيع شروط الانعقاد المارة؛ لأن ما لا ينعقد لا يصح، وعدم التوقيت، ومعلومية المبيع."

(كتاب البيوع، ٤/ ٥٠٥، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144507100464

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں