کیا داڑھی سیٹ کروانے والا تراویح پڑھا سکتا ہے؟
واضح رہے کہ ایک مشت داڑھی رکھنا شرعاً واجب ہے،کانوں کے پاس جہاں سے جبڑے کی ہڈی شروع ہوتی ہے وہاں سے شروع ہوکر پورا جبڑا داڑھی کی حد ہے، اور بالوں کی لمبائی کے لحاظ سے داڑھی کی مقدار ایک مشت ہے، ایک مشت داڑھی سے زائد بالوں کو سیٹ کروانے میں کوئی قباحت نہیں، ڈاڑھی کے بارے میں یہی معمول رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ہے،شرعی حدود میں رہتے ہوئے ٹھوڑی اور جبڑے کے علاوہ رخسار اور گردن کے بالوں کو صاف کرنا اور خط بنوانا جائز ہے، ، الغرض چوں کہ ایک مشت سے زائد داڑھی کی سیٹنگ کرانا جائز ہے ، اس لیے ایسے شخص کا تراویح اور تراویح کے علاوہ دوسری نمازیں پڑھانا بلا کسی شک و شبہے کے درست ہے۔(البتہ خط کے نام پر آج کل مختلف انداز کی جو داڑھیاں بنائی جارہی ہیں وہ داڑھی کے ساتھ مذاق کے مترادف ہے، جس سے بچنا نہایت ضروری ہے)
البتہ داڑھی کی حد کے اندر اگر بال ایک مشت سے کم ہوں تو ان کو کٹوانا جائز نہیں ہوگا، اس کو کنگھی وغیرہ سے سیٹ کیا جاسکتا ہے، ایک مشت سے کم داڑھی کو کٹوانا اور اس کی سیٹنگ کروانا ناجائز اور گناہ ہے اور ایسا شخص فاسق ہے خواہ حافظِ قرآن ہو یا غیر حافظ، دونوں کے لیے حکم ایک جیسا ہے، لہذا جو شخص داڑھی منڈواتاہو یا شرعی مقدار سے کم داڑھی رکھتاہو ایسے شخص کو تراویح اور غیر تراویح میں امام بنانااور اس کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہِ تحریمی ہے۔
بخاری شریف میں ہے:
"عن ابن عمر عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «خالفوا المشركين: وفروا اللحى وأحفوا الشوارب، وكان ابن عمر إذا حج أو اعتمر قبض على لحيته، فما فضل أخذه»."
(كتاب اللباس ، باب تقليم الأظفار، 875/2، ط:قدیمي)
سنن ترمذی میں میں ہے:
"عن عمرو بن شعيب ، عن أبيه ، عن جده، أن النبي صلى الله عليه وسلم «كان يأخذ من لحيته من عرضها وطولها»."
(أبواب الأدب عن رسول الله صلي الله عليه وسلم،باب ما جآء في الأخذ من اللحية،105/2،ط:قدیمي)
فتاوی شامی میں ہے:
"(قوله: جميع اللحية) بكسر اللام وفتحها نهر، وظاهر كلامهم أن المراد بها الشعر النابت على الخدين من عذار وعارض والذقن.
وفي شرح الإرشاد: اللحية الشعر النابت بمجتمع الخدين والعارض ما بينهما وبين العذار وهو القدر المحاذي للأذن، يتصل من الأعلى بالصدغ ومن الأسفل بالعارض، بحر."
(کتاب الطهارۃ، أركان الوضوء،100/1، ط: سعید)
وفیہ ایضاً:
"و أما الأخذ منها وهي دون ذلك كما فعله بعض المغاربة و مخنثة الرجال فلم يبحه أحد، و أخذ كلها فعل يهود الهند و مجوس الأعاجم."
(كتاب الصوم ، باب ما يفسد الصوم وما لا يفسده، 418/2، ط:سعید)
وفيه ايضاّ:
"وأما الفاسق فقد عللوا کراهة تقدیمه بأنه لا یهتم لأمر دینه، وبأن في تقدیمه للإمامة تعظیمه -إلی- بل مشی في شرح المنیة علی أن کراهة تقدیم کراهة تحریم؛ لما ذکرنا."
(کتاب الصلاۃ، باب الإمامة،560/1، ط: سعید)
وفیہ ایضاً:
" يحرم على الرجل قطع لحيته."
(کتاب الحظر والإباحة، باب الإستبراء و غيره، فصل في البيع، 407/6، ط:سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144409100417
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن